عربوں کے بچھڑے ہوئے بھائی(ایک ان دیکھی جنت "بلوچستان”)

0

-/3,47,190مربع کلومیٹر رقبہ (پاکستان کے کل رقبے کا 43.6%) پہ پھیلا ہوا۔ تیرہ ملین سے زیادہ نفوس پہ مشتمل، 760 کلومیٹر ساحلی پٹی پر اپنے دامن وفا (سونمیانی، اورماڑہ، کلمت، پسنی، گوادر اور جیوانی کی بندرگاہوں کے پھیلائے پروں) اور 36000 کلومیٹر صحرائی علاقہ۔36 اضلاع۔ 6 ڈویژنوں) میں سموئے ہوئی یہ اندیکھی جنت ۔ بلوچستان۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جو پاکستان کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے اور یہ پرکیف مناظر کی سرزمین کے طور پر کھڑا ہے، امیر ثقافتی ورثہ، ہزار سال پرانی دلچسپ تاریخ اور جغرافیائی طور پر صوبہ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخواہ، بحیرہ عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران اور افغانستان کے حصار میں موتی کی طرح دمکتا ہے۔ %70بلوچ پاکستان میں ہیں اور %20ایران میں اور کچھ افغانستان میں ہیں۔ بلوچستان کی سرزمین پر بلوچ، پشتون، براہوئی، ہزارہ سمیت مختلف نسلوں کے کندن نما برتن کی مانند ہیں جو گرم مہمان نوازی، متحرک ثقافتی نگہبانی، روایتی بلوچی کھانوں، مشہور سجی، دستکاری، پیچیدہ کڑھائی، مٹی کے برتنوں کے ذریعے مہمانوں کا کھلے ہاتھ سے استقبال کرنے میں شہرت عامہ کے امین ہیں۔ اونٹ کی جلد کی مصنوعات، اس خطے کے باشندوں کی فنکارانہ صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں، جس سے یہ بہترین تحائف تیار کرتے ہیں۔

آثار قدیمہ کے ماہرین نے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں پتھر کے زمانے سے زندگی کی خوبصورت آثار موجود ہیں۔ اور اسے 7000 قبل از مسیح میں قائم” مہرگڑھ "تہذیب کا نام دیا جاتا ہے۔

تاریخی طور پہ مشہور ہے کہ مسلمان 654 میلادی میں عبدالرحمٰن بن سمرہ کی سربراہی میں عرب اس علاقے میں فاتح و غالب بن کر آئے تھے اور یہاں فتح حاصل کی، جو اس وقت انکی عملداری کا احاطہ تھا۔ وہ اب منقسم ہوکر افغانستان، پاکستان اور ایران کے زیر نگیں ہیں، اور وہ اس علاقے کے 656 میلادی تک گورنر رہے۔ اور تمام بلوچستان ان کے تابع فرمان تھا۔

660میلادی میں مسلمان خلیفہ امیر المومنین حصرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم کی تعمیل میں حارث بن مورہ نے بلوچستان میں امن مشن قائم کیا۔

بلوچ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امیر حمزہ ابن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ، علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہیں۔ جیسا کہ ان کی روزمرہ کی زندگی، نام، شہر، خوراک، تاریخ، ہجرت۔ روایات۔ انداز ۔ طرز حیات۔ طرز جفا کشی۔ طرز حیا و غیرت۔ مہمان نوازی۔ بہادری۔ دلیر و بنگ انداز۔ کپڑے، قبائل، ثقافت اور طرز زندگی کے لحاظ سے اور جیسا کہ اونٹوں اور اونٹوں کی دوڑ، جیپوں اور جیپوں کی دوڑ، عقاب اور شکاری۔ یہ سب علامات ۔ استعارے اس کی تصدیق کا اشارہ کرتے ہیں، اس خوبی کے حاملین میں ایک اور بات کہ عرب کے صحراؤں کی طرح کے صحرا ہیں جو انکے لئے ایک جبلی و فطری گہوراہ ہونے کی دالت ہے۔ آج کا بلوچ ، بلوچستان میں عربوں کی خوبیوں کا امین اور وارث ہے ۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عرب "بلوچستان "پاکستان میں ایک صوبہ ہے۔

بلوچستان میں اتحاد کا ایک ہی رشتہ ہے، اور وہ ہے ” دین اسلام”
ایک روایت کے مطابق راوی کہتے ہیں کہ یہ عرب لوگ بلوس (حلب) نامی گاؤں سے آئے اور یہاں کے ساکنان نے اپنے جائے سکونت (سکنہ) کا نام بلوچستان رکھا اور پھر اس نسبت سے بلوچی کہلائے ۔جو کہ اب ایران، افغانستان اور پاکستان میں تقسیم ہو چکا ہے اور ان کے خاندان ان علاقوں میں آج بھی آباد ہیں۔

اس خطہ جنت کو 1876 اور 1891 میں برطانوی نوآبادیاتی دور نے 1947 تک برٹش بلوچستان کا نام دیا، کیونکہ انگریزوں نے اس گہوراہ عرب "بلوچستان ” کو مختلف علاقوں اور جنگی سرداروں میں تقسیم کئے رکھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گہوراہ عرب "بلوچستان” پوری انسانی تاریخ میں تمام استعماری طاقتوں کے لیے بہت پرکشش تھا۔ جیسے روس اور برطانیہ نے اپنی ضرورتوں کے لیے بلوچستان کو تقسیم کرنے کے انداز میں استعمال کیا۔

1947میں اور اس کے بعد الحاق کے ذریعے یہ خطہ گہوراہ عرب "بلوچستان "اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ اور صوبہ بن گیا۔

یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ بلوچستان پتھر کے زمانے سے لے کر سی پیک کی خوبصورتی تک بے ترتیب ثقافتوں اور افزودہ تہذیبوں کا بھی گہوارہ ہے۔

بلوچستان صحراؤں، پہاڑوں، متاثر کن مناظر، افزودہ ثقافتی ورثے، غیر استعمال شدہ خوبیاں، قومی چشمے، قدرتی حسن، سرنگیں اور معدنیات، گوادر سمیت پانچ بڑی سمندری بندرگاہیں، طویل کوسٹل روڈ، اس کے حیرت انگیز مناظر، بھرپور ثقافتی ورثے کا مجموعہ ہے۔ غیر استعمال شدہ صلاحیت، سیاحت اور اس کے محفوظ انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کے لیے درست کوششوں کی ضرورت ہے۔نڈر مسافروں اور متجسس متلاشیوں کے لیے ایک سنہری ریت، صاف شفاف پانی، قدرتی ساحل، منفرد جنگلی حیات۔ نیشنل ہنگل پارک۔ نایاب جنگلی حیات بشمول نایاب چیتا ۔ اور متنوع ماحولیاتی نظام کی حفاظت کرتا ہے، جنگلی حیات سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ایک بے مثال تجربہ کرنے کے لئے اپنے متلاشیان کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا یہ خطہ گہوراہ عرب بلوچستان ہے۔

اس لیے یہ شہری زندگئ کی ہلچل سے دور۔ پرسکون اعتکاف کی شکل میں دستیاب ہے۔
بلوچستان میں پوشیدہ خزانے (تیل۔ گیس۔ موتی۔ سونا ۔ چاندی۔ تانبہ۔ اور بہت سی معدنیات) ہیں، جو ابھی تک نامعلوم اور نا آشنائی کے حامل ہیں اور ان کے عجائبات دریافت کرنے کی تلاش میں ہیں۔ اور ایسے خوابیدہ جواہر کے متلاشیوں کی مدتوں سے راہ تک رہے ہیں۔

بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ایک پوشیدہ جواہرہے جو ایک دلکش وادی میں واقع ہے جو برف سے ڈھکی چوٹیوں سے گھری ہوئی ہے جو ایک حقیقی ماحول پیدا کرتی ہے، ناہموار پہاڑوں، بنجر صحراؤں، زرخیز وادیوں سے منسلک، آثار قدیمہ کے عجائبات جیسے ایک ماہر آثار قدیمہ کی جنت، قدیم تاریخی مقامات پر مبنی ہے۔ ثقافتی ورثہ مجموعی طور پر صوبہ زیارت اور ٹوبہ کاکڑ کے سلسلے کی شاندار چوٹیاں ہیں۔

مشہور کھوجک ٹنل (خوجک سرنگ) جسے شیلا باغ ٹنل بھی کہا جاتا ہے، قلعہ عبداللہ ضلع میں ایک 3.91 کلومیٹر (2.43. میل) ریلوے سرنگ ہے، جو کوئٹہ سے 113 کلومیٹر دور 132 سال پہلے (1888-1891) تعمیر کی گئی تھی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ فلائٹ ٹیسٹ رینج نامی پرائمری راکٹ سونمیانی بیچ (بلوچستان) 1961 میں قائم کیا گیا تھا، جس میں رہبر-I سے پانچ رکنی ٹیم نے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا تھا جس میں طارق مصطفیٰ (رہنما)، کے ساتھ سلیم۔ سکندر زمان اور محمود شامل تھے۔ جنہوں نے 7 جون 1962 کو، اس گہوراہ عرب (بلوچستان) سونمیانی فلائٹ سینٹر سے ٹھوس پروپیلنٹ موٹرز کے ساتھ رہبر-I ٹو اسٹیج راکٹ کو لانچ کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی پذیر ممالک میں پہلا مقام دلایا۔

آرمی اینڈ سٹاف کالج 1907 میں قائم کیا گیا تھا اور ملٹری کالج اس کے علاقے سوئی بلوچستان میں قائم کیا گیا تھا جیسا کہ اس وقت پاکستان کے صدر جنرل مشرف نے 2011 میں افتتاح کیا تھا۔ جو کہ ڈیرہ بگٹی، جعفر آباد، گوادر اور قلعہ سیف اللہ میں تعلیم اور اعلی ترقیاتی سفر کا باب اول بن رہا ہے۔

گوادر کا قدیم شہر شاندار ماضی کا حامل اور بحیرہ عرب پر تزویراتی تجارتی راستے پر ایک اقتصادی بندرگاہ ہونے کے ناطے ایک اہم اقتصادی مرکز اور خطے میں تجارت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر ابھرا ہے، اس کی ترقیاتی صلاحیت کو آج چین پاکستان کا عروج کہا جاتا ہے۔ اقتصادی راہداری(CPEC)، ایک گیم چینجر منصوبہ، بلوچستان کے معاشی امکانات کو مزید بڑھاتا ہے، اسے بین الاقوامی منڈیوں سے جوڑتا ہے اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔

کانیں ،معدنیات ، ماہی گیری اور گوادر مستقبل کی ترقی کی علامت اور معاشی شان کی کنجی ہیں۔

عرب آباؤ اجداد کے کھوئے ہوئے بھائیوں کو مالیاتی منبع مل گیا ہے کہ وہ پھلنے پھولنے اور آنے والے وقتوں میں خوشحالی لانے کے لئے تیار ہے اور اس کے باشندے پورے جوش و خروش اور جوش و جذبے کے ساتھ ہرطرح کی کوشش اور مشق کر رہے ہیں اور وقت آگیا ہے۔ عرب آباؤ اجداد کے کھوئے ہوئے عرب بھائیوں کے پاس ایک ایسا علاقہ جو کہ ان دیکھی جنت ہے اسے بلوچستان کہا جاتا ہے اپنی اولاد کو لطف اندوزی اور تفریح اور پرامن زندگی کے لیے اپنے گہوارہ (جھولے) میں آنے کی طرف راغب کرتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.