کون ہے ذمہ دار؟

0

60 ہزار تنخواہ لینے والے سرکاری اسکول کے ٹیچرز اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول کی 10 ہزار سیلری لینے والے ٹیچرز کے پاس بھیجتے ہیں تاکہ ان کے بچے بہتر تعلیم حاصل کر سکیں۔ یہ ایک حقیقت ھے اور ایسا ہی ہو رہا ھے۔ سرکاری اسکولوں کے ٹیچرز آج بھی وہی سلیبس پڑھا رہے ہیں جو انہوں نے اپنے وقتوں میں پڑھا تھا۔ پرائیویٹ اسکول ایک مافیا کی شکل اختیار کر گیا ھے۔ ایسا لگتا ھے اس مافیا نے وزارت تعلیم کے ساتھ مل کر کوئی گٹھ جوڑ کیا ہوا ھے، سرکاری اسکولوں کے نصاب میں غیر ضروری تبدیلیاں نہیں کرنے دیتے ہیں۔

سرکاری اسکولوں میں بالخصوص سندھ میں سیاسی بھرتیاں ہوتی رہی ہیں اساتذہ نااہل اور جعلی ڈگریوں والے ہیں۔انکی تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے برابر ھے۔ وہ کسی طور پر نئے سلیبس پڑھانے کی قابلیت نہیں رکھتے ہیں۔ اسی لیے تعلیمی ادارے تنزلی کا شکار ہیں۔ 25 فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ھے ۔ وہ بڑی مشکلوں سے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ہمارے بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ دس فیصد بچے کالجوں تک پہنچ پاتے ہیں، یونیورسٹی میں شاید ایک یا دو فیصد یا اس سے بھی کم۔

پرائیویٹ اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیس ایک عام پاکستانی کے لیے ادا کرنے سے قاصر ھے۔ پرائیویٹ اسکول میں بھی مختلف قسم کے سلیبس پڑھائے جاتے ہیں۔ انگریزی طرز تعلیم اور کیمرج سے منظور شدہ۔ کیمرج کے سلیبس کے تحت او لیول اور اے لیول تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علموں کی کثیر تعداد بیرون ممالک اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کا رخ کرتی ھے۔ اکثر طالب علم وہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں جوب کر لیتے ہیں۔

جاگیرداروں ، سرمایہ کاروں، بیوروکریٹ اور فوجی افسران کے بچے واپس آکر اپنا کاروبار سنبھالتے ہیں اور ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔انکے لیے پاکستان میں راہیں ہر میدان میں کھلی رہتی ہیں۔ یہ لوگ سی ایس ایس کے امتحانات بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کرتے ہیں اور جو نہیں کر پاتے ہیں انکے لیے سفارشی راستے کھلے رہتے ہیں۔ پاکستان کے ہونہار طالب علموں کی بڑی تعداد بیرون ممالک رہنے اور کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔چند سالوں میں شہریت حاصل کر لیتے ہیں انکی تعلیمی صلاحیتوں سے غیر ملکی مستفید ہوتے ہیں۔

ملک سے برین ڈرین کا یہ سلسلہ چار دہائیوں پر محیط ھے۔ آج ملک میں انڈسٹریل گروتھ ترقی یافتہ ممالک سے اسی لیے کم ھے ہمارے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کی بہت کمی ھے جو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوں ۔پاکستان کی تنزلی میں جہاں کرپٹ انتظامیہ تباہی و بربادی مچا رہی ھے وہیں تعلیم یافتہ نوجوان کی شدید کمی ھے۔ ہم ترقی یافتہ ممالک سے اسی لیے بہت پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہمارے ملک میں تحقیقاتی ادارے نہیں ہیں۔جو ہیں انکو حکومت اتنی مالی امداد فراہم نہیں کر رہی ھے جسکی وجہ کر وہ کوئی گراں قدر خدمات سرانجام دے سکیں۔

حکومت اور مخیر حضرات کو چاہیے کے آگے ہیں اور ملک میں نوجوانوں کے لیے ٹیکنیکل کالجوں کا قیام کریں جس میں نوجوان تعلیم حاصل کریں اور ہنر سیکھیں۔ انکی ہنرمندی سے استفادہ حاصل کریں۔ ملکی معیشت کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے لائق ہوں۔ آج نوجوانوں کی کثیر تعداد اسٹریٹ کرائم اور نشہ جیسی لعنت کا شکار ہو رہے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!