حکمران سے عوام تک

0

ابھی کل کی ہی تو بات تھی کہ ہر شخص کو یقین تھا کہ حالات ہمارے قابو میں رہیں گے لیکن سمجھ سے یہ بھی باہر ہو چکا ہے کہ آخر یہ کل کونسی تھی اور آج ہم حالات کے جس دہانے پر کھڑے ہیں وہاں سے سنبھل بھی پائیں گے یا نہیں ۔ ملکی معیشت کا سانس اکھڑ رہا ہے کیا یہ سانس ہم دوبارہ بحال کر پائیں گے ؟ سوالیہ نشان کب تک ہمیں اپنی شکل دکھا کر پریشان کرتا رہے گا ۔ کب تک امید کی کشتی ڈگمائے گی ۔ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال جنم لے چکا ہے کہ یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ آج تک تو اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا ایک مدت ہو گئی اونٹ ایک ٹانگ پہ کھڑا ہے اب تو یہ ڈر ہے کہ یہ اونٹ گر کر دم ہی نہ توڑ دے اور لوگ اس کی کروٹ کا انتظار کرتے رہ جائیں ۔

کبھی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے خدشات تو کہیں ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں کہیں مہنگا ئی کا ابلتا ہوا لاوا اور کہیں نئی نسل کی بے راہ روی کا خوف جنم لے چکا ہے ۔ اگر ایک حکمران بن جاتا ہے تو اپوزیشن گھناؤنے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا کر اس کو ملک و قوم کے لیے درست لائحہ عمل اختیار کر کے سکون سے کام نہیں کرنے دیتی ۔دونوں صورتوں میں نقصان پوری ریاست کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ غریب طبقہ زبوں حالی کا شکار ہو کر یا تو خودکشی کو ترجیح دیتا ہے یا چوری چکاری اور ڈکیتی جیسی وارداتوں میں ملوث ہو جاتا ہے ۔ تکلیف دہ صورت حال سے نکلنے کے لیے حکمران سے لے کر عوام تک لوگ اپنا محاسبہ کیوں نہیں شروع کر دیتے ۔ کیوں نہیں سمجھتے کہ خود احتسابی تمام مسائل کا حل ہے ۔اگر بہتر لائحہ عملی اختیار کی جائے تو کوئ بھی ریاست خوشحال ہو جاتی ہے ۔ لیکن یہ شعور بیدار کیسے ہو ۔ سنا تھا کہ قلم میں بہت طاقت ہوتی ہے لیکن آج کے انسان کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں کہ قلم کی آواز سن سکیں ۔ وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی نے ذھنوں کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ انھیں پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے ۔ روزی روٹی کی بھاگ دوڑ نے عزت نفس کے مجروح ہونے کا خیال بھی شکستہ کر دیا ہے ۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ہماری ریاست کو مضحکہ خیز نظروں سے دیکھیں ۔

ہمیں اپنے کل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے آج کو سنوارنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہی ہو گی یہ ذمہ داری خوداحتسابی کے عمل سے گزر کر حکمران طبقے سے لے کر عام طبقے کے ہر فرد کو نبھانی ہو گی تاکہ اس زیادہ سنگین حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

حالات حاضرہ کا نقشہ سمجھ سے بالاتر ہے اس نقشے کو واضح اور خوشنما بنانے کے لیے ملک کے ہر فرد کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا میرے قلم کی یہ آواز جتنے کانوں تک پہنچے خدارا عمل درآمد شروع کریں ۔کسی بھی ملک و قوم کی خوشحالی کا دارومدار ریاست کی افرادی قوت کی مثبت انداز سے مضبوطی پر ہے۔ صحیح اور غلط کی پہچان ہمیں ہی کرنی ہے ۔ تاکہ ہم صحیح کا انتخاب کرنے میں کوتاہی کا شکار نہ ہوں ۔ ہمیں ریاست میں امن و امان کی فضا خود پیدا کرنی ہے چاہے ہم حکمران ہوں یا اپوزیشن یا عوام ۔ ریاست ہم سب کی ہے حب الوطنی کا جزبہ سب میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا چاہیے ۔

چار روز قبل میں نے اورنج ٹرین کا سفر کیا ٹرین کھچا کھچ بھری ہوئی تھی دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اورنج ٹرین سے کتنے لوگوں کے پیسوں اور وقت کی بچت ہو رہی ہے بے شک اورنج ٹرین کی سہولت بہت بڑی نعمت ثابت ہو رہی ہے۔

لیکن ایک سٹاپ ہی گزرا تھا کہ ایک آٹھ نو سال کا بچہ ٹرین میں میرے پاس آکر بولا کہ باجی کچھ کھانے کو لینا ہے پیسے دے دیں دل کو دھچکا لگا کہ بھکاری کس قدر بڑھ گئے ہیں کہ کوئی جگہ بھی ان سے خالی نہیں ہے ۔ یہ پیشہ ورانہ سلسلہ ختم کرنے کے لیے بھی ہمیں احسن اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اتنے مسائل معاشرے میں جنم لیتے جا رہے ہیں کہ انسانی عقل مفلوک الحال ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ پارلیمانی وفاقی صوبائی اور عدالتی نظام اور فوجداری تمام جگہوں پر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ خوش آئند اور دیر پا تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے ۔ انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائے کیونکہ اس میں اتنے خلاء پیدا ہو چکے ہیں کوتاہیوں نے سر اٹھا لیا ہے کہ ملک و قوم کے لیے ناقابل برداشت نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں ۔ حالات کے پیش نظر میرا قلم چیخ چیخ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ شائد کتنے لوگ سوچنے پر مجبور ہو جائیں اور میری محنت کارگر ثابت ہو ۔

پاکستان کی حفاظت ہر پاکستانی اوورسیز پاکستانی کی اولین ذمہ داری ہے ۔ یاد رکھیں یہ ہمارا ملک ہے اور ہم سب کو مل کر اس کی شان و شوکت بڑھانی ہے ۔

پاکستان زندہ باد
انمول گوہر/لاہور پاکستان

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!