آخری آزمائش

0

وہ اس وقت بمشکل چودہ سال کی عمر کو پہنچی تھی جب اس کے لئے خود سے پندرہ سال بڑے پھوپھی زاد کا رشتہ آیا۔جسے اس کے والدین نے بنا کسی تردد کے قبول کر لیا۔ایک اچھی بیٹی کی حیثیت سے اس نے بھی والدین کے اس فیصلے کو سرخم تسلیم کر لیا تو پھر اسے منگنی کے چند ماہ کے بعد ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا اور وہ بیاہ کر سسرال رخصت کر دی گئی۔شادی کے پہلے روز جب اس نے سسرال گھر میں قدم رکھا تو اسے اپنی ساس کی طرف سے یہی الفاظ سننے کے ملے

"تمہارا وجود اب ایک بہو کی حیثیت سے ہے۔اس گھر میں اگر رہنا ہے تو اپنی حدود کا خیال رکھنا۔آج سے تمہاری اوقات فقط ایک نوکر سی ہے مگر گھر کی مالکن بننے کے لئے تمہیں کڑے وقت سے گزرنا پڑے گا یا پھر میرے گزرنے کا انتظار کرنا ہو گا”ساس نے ہتک آمیز رویہ اپنایا تو وہ اس کے الفاظ سن کر دنگ رہ گئی۔اسی بدزبانی کا سامنا اسے اپنی تینوں نندوں کی طرف ہوا جب ایک کی زبان نے زہر اگلا

"ہمارے بھائی کے لئے تم کوئی معنی نہیں رکھتی یہ تو ہمارے ابا تھے جن کے اصرار پر تمہیں ہم لوگ بیاہ کر لائے تھے ورنہ ہمارے بھائی کے لئے وہ کچھ تھا جس کے بارے تم سوچ نہیں سکتی”

"ہمارے بھائی کو مٹھی میں کرنے کے بارے کبھی سوچنا بھی مت ورنہ ہم اسی مٹھی میں تمہیں مسل دیں گی”دوسری نند نے انگلی کا اشارہ کر کے اسے دھمکی دی تو تیسری نند اسے دیکھ کر ہنستی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔پھر شوہر کے الفاظ نے بھی اس کے سینے کو چھلنی کر دیا۔غرض اسے پتا چل گیا تھا کہ اس کا یہ رشتہ کاغذ کے ٹکڑے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے مگر اپنے والدین کی عزت کا پاس رکھنے کے لئے اس نے زبان سے کوئی شکوہ نہ کیا۔اس نے بہت خاموشی سے سسرال میں اپنا وقت گزارا جب ہی شادی کے دو سال بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔بیٹا کیا تھا جیسے دنیا کی ساری نعمتیں اس کے قدموں میں آ گئیں تھیں۔وہ اپنی ہر دکھ،تکلیف اور اذیت کو بھول گئی تھی جو پچھلے دو سالوں سے اس نے سہی تھی۔اس کا وجود اس کا بیٹا تھا جو کم از کم آنے والے وقت میں اس کا غرور ہو گا۔وہ بیٹے کو دیکھ کر سوچتی اور آنسو بہاتی کہ کبھی تو اچھے دن آئیں گے جب اس کے سب زخم بھر دیئے جائیں گے مگر شاید قدرت کچھ لوگوں کو عمر بھر کی آزمائشوں کے لئے چن لیتی ہے۔اس کے لیے ہر رشتہ ہی آزمائش ہوتا ہے اور فقط موت ہی اسے فرحت بخش سکتی ہے کہ جب سانسوں کی ڈوری تھم جائے۔زندگی کے کرے امتحانوں اور آزمائشوں کی ایک طویل مدت کے بعد اس کے کمزور سے وجود پہ اس وقت رحم کر دیا گیا جب اس نے سسرال میں بتیس سال گزارے تو اس کے جگر میں کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہو گئی۔شاید قدرت نے اسے سںب غموں سے نجات کے لئے رستہ بنا دیا تھا۔ان بتیس سالوں میں اس نے کسی بھی رشتے کا رویہ تبدیل ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ساس اب بھی گھر کی سلطنت پہ واحد حاکم تھی جب کہ شوہر کی طرف سے جو وقتی سکون اسے میسرا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ اب وہ کچھ سالوں سے دوبئی میں مقیم تھا مگر اس کی ذمہ داری اس کی تین نندوں میں سے ان دو نندوں نے اٹھا لی جو سسرال سے اجڑ کر ماں باپ کے گھر کی دہلیز پہ آ گئیں تھی اور اسے ان کے بچوں کا بوجھ بھ اٹھانا پڑ رہا تھا۔ان بتیس سالوں میں ہر قسم کے طعنے اور ظلم سہنے کے بعد اس کا وجود پتھر ہو گیا اور اس نے رونا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ جان گئی تھی کہ یہ سب اس کے نصیب میں ہےمگر کینسر کے مرض سے پہلے اس کے وجود کو اس کے بیٹے نے جھنجھوڑ کر رونے پہ مجبور کر دیا جب بری صحبت کی وجہ سے اسے دو ماہ کے لیے جیل جانا پڑا۔اس کے بیٹے جو قدم اٹھایا وہ اس کے لئے تابوت میں آخری کیل کی طرح ثابت ہوا اس وقت بھی سب سسرالیوں نے گھر سر پہ اٹھا لیا تھا اور ساری غلاظت اس کی تربیت اور اس کا خون ہونے جیسے القابات پہ نکال دی۔یہ درد اس کی برداشت سے باہر تھا۔وہ آنسو پونچھتی ہوئی اپنے بیٹے سے ملنے جیل گئی جہاں اس کے سامنے کچھ آنسو بہائے اور پھر اس سے ملنے کے بعد پلٹ آئی۔اس نے وقت بھی بیٹے سے کوئی شکوہ نہ کیا جس کی پیدائش پہ اس نے مان کہا تھا کہ وہ اس کا سہارا بنے گا۔مگر آج اسے حقیقی معنوں میں یہ محسوس ہوا کہ وہ مر چکی ہے۔اپنے بیٹے کو لے کر وہ کئی روز تک آنسو بہاتی رہی جب اس کے پیٹ میں درد شروع ہوا اور کئی ہفتوں تک جاری رہا۔پہلے نارمل علاج کے بعد اس کے شوہر نے اس کے چند ضروری ٹیسٹ کروائے تو اس کے جگر میں کینسر کی تشخیص ہوئی جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں جبکہ اس کا شوہر ہکا بکا سا وہ رپورٹ دیکھتا رہا۔شوہر کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ کچھ بھی کہہ سکے۔وہ فقط سر کو جھکائے ڈاکٹرز کی بات سنتا رہا اور ضروری ہدایات لیتا رہا۔اس کے پاس الفاظ ختم ہو گئے تھے اور کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا مگر اسے اپنی سب اذیتیں ختم ہونے کا انتظار تھا۔یہ اس کی زندگی کی آخری آزمائش تھی اور اس نے زبان سے کوئی شکوہ بھی نہیں کیا تھا کہ آخر اس سب کے لئے صرف اسی کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا۔

وہ اس وقت ہاسپٹل کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود تھی۔اس کے ارد گرد اس کے کئی رقفاء تھے،اس کے خاندان کے چند لوگ تھے اور چاروں بچے جو آنکھوں میں آنسو سجائے اس کی سانسوں کی ٹوٹتی ہوئی ڈوری دیکھ رہے تھے۔اس نے ایک نظر اپنے بچوں کی طرف دیکھا پھر باری باری سب رشتہ داروں کی طرف نگاہ دہرائی۔اس کی ساس ہاتھ میں ہاتھ میں تسبیح تھامے ویل چیئر پہ براجمان تھی اور اس کا وجود کانپ رہا تھا۔اس کا ہاتھ ایک نرس کے ہاتھ میں تھا جو اسے تسلسل سے مل رہی تھی اور چند ڈاکٹرز اس کے پاس موجود تھے مگر ملک الموت نے کسی کو موقع ہی نہ دیا کہ وہ اسے بچانے کے لیے کوئی تگ و دو کر سکیں اور اس کی روح پرواز کر گئی۔آخری وقت نے اس نے سب کی بے بسی دیکھی تھی۔عمر بھر رلانے والے اب رو پڑے تھے کہ وہ چلی گئی ہے اور ان کا رونا اب لمحوں کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔وہ عورت جس نے ایک بیٹی بن کر باپ کے کہے پہ اپنا سر جھکا دیا اور صرف چودہ سال کی عمر میں خود سے پندرہ سال بڑے مرد سے شادی کر لی۔اس نے سسرالیوں میں تا عمر رہنے کے لئے اور اپنے میکے والوں کا بھرم رکھنے کے لئے اپنے شوہر کے ظلم سہے۔سسرال والوں کی طرف سے انتہاء کو پہنچتے طعنے اس کے دل کو زخمی دیتے اور رہی سہی کسر بیٹے کی نافرمانی نے اس وقت نکال دی جب اس کی آوارہ گردیوں نے اسے جیل پہنچا دیا تو سارا ملبہ اس کی تربیت اور خون پہ ڈال دیا گیا۔اس نے زندگی کے جتنے سال بھی اپنے سسرال میں گزارے وہ سب اس کے لئے موت سے کم نہیں تھے مگر حقیقی موت نے جب اسے اپنی مہربان آغوش میں لے لیا تو رونے والوں کے آنسو ختم ہو گئے مگر وہ اذیتوں کے زنداں میں جکڑی اب لاش کی صورت میں ان کندھوں پہ تھی جنہوں نے اس کے لئے اذیت کا سامان کیا تھا اور وہ کندھا بدلتے اسے دفنانے کے لئے قبرستان لے گئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!