پردیسی بچے۔

0

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

دیکھنے میں تو یہ تصویر ہے جس میں چند نوجوان بیٹھے ہوئے نظر آرہے ہیں ،درخت کے ساتھ میں ان کو بیٹھنا نصیب ہوا ہے لیکن یہ غریب الوطنی کی تصویر ہے اور یہ شعر اس کی غمازی کرتا ہے یہ سارے کزن پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ تر ہزارہ کے ہیں اور گاؤں نلہ کے یہ پردیس میں سعودی عرب میں بھی کچھ رہے ہیں اور یہ والی جو تصویر ہے یہ دبئی کی تصویر ہے یہ ملک خداداد پاکستان کے نوجوان محنت مزدوری کے لیے وہاں اکٹھے ہوئے کوئی اچھی جابوں کا کام کر رہے ہیں کچھ محنت کشی پہ اپنا گزارا کرتے ہیں۔

لیکن اصل چیز جو یہ ہے کہ یہ اس وقت سعودی عرب، دبئی، ابوظہبی اور دوسری ریاستیں جو ہیں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی بنے ہوئے ہیں،ایک بچہ جو بالکل لیفٹ سائیڈ پہ ہے جو سعودی عرب پہنچا تو جاتے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہ اس کے والد کے آنسو ٹپکتے دیکھے تو پھر اپنا خیال آیا ،میں بھی تو 1977 میں گجرانوالہ ریلوے اسٹیشن سے کراچی کے لیے روانہ ہوا اس ریلوے اسٹیشن پر میری ماں جواب اس دنیا میں نہیں ہے انہوں نے مجھے ماتھا چومتے ہوئے بڑی دلیری سے یہ جواب دیا تھا جو میرے آنسوئوں کا جواب تھا، کہنے لگی بیٹا جوان اور گھوڑے کا کوئی دیس نہیں ہوتا اور ایک بار میں جب لاہور سے رات گئے گھر پہنچا تو اپنے دائیں پاؤں میں کھجلی کر رہا تھا ان کے پاس بیٹھا باتیں بھی کر رہا تھا تو کہنے لگے کہ میرا بیٹا بہت سفر کرے گا ۔

یہ بات تو بڑی سچاوت ہوئی میٹرک سے تین چار سال پڑھائی کے لیے لاہور کا سفر ٹرین پہ کیا اس کے بعد سعودی عرب گئے وہاں پہ دوران ملازمت بہت سے ملکوں کی سیر کی اور ایک دن میں نے لکھا بھی کہ بے جی میں نے اتنا بھی تو اپنے پاؤں میں خارش نہیں کی تھی اور آج وہ اس دنیا میں نہیں ہے اپنے ان بچوں کو دیکھ کے کہتا ہوں کہ بھیجی گھوڑا بھی کہیں تھک کے بیٹھ جاتا ہے اور اپنے مالک کے پاس رک جاتا ہے میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میری دوسری نسل اب وہاں کام کر رہی ہے اور تیسری نسل وہاں پہ جدہ میں اور دبئی میں پڑھ رہی ہے اور یہ جو بچے دائیں ہاتھ والا حنیف کا بچہ ہے، بھائی میرا افضل کا بیٹا عامر ہے اور اسی طرح ایاز ہے دلدار عمر ارشاد اور ہمارا پیارا شہزاد اور شیری یہ ملک سے باہر گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں کہا تھا کہ
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

اس غریب الوطنی کی داستانیں تو بہت ہیں ایک بار 1978 میں رب الخالی کے مقام پر ایک چھوٹی سی ٹہنی جو صحرا میں کھل اٹھی تھی اس کے ساتھ لوگ تصویریں بنا رہے تھے اور میں اپنے آپ کو کسی اور جگہ دیکھ رہا تھا وہ سفر جو 1971 میں ٹرین سے شروع ہوا وہ بالآخر جہازوں پہ یا رکا ہر چیز میں انسان اپنا ہی دیکھتا ہے اپنی تصویر دیکھتا ہے اپنے جوانی کے وہ دن دیکھتا ہے آج یہ نوجوان دبئی میں کہیں بیٹھے ہیں کل ان کے بڑے یعنی ہم کبھی طائف کے جنگلوں میں پھرتے تھے سیریں کرتے تھے اب خمیز مجھے اور کیا کیا نام لوں ان جگہوں پہ ہم گئے جہاں پہ سعودی بھی نہیں گئے ہوں گے۔

رب الخالی کا سفر اور دوسری طرف جی جان نجران کا سفر اور اس طرف تبوک تک سفر کرتے گئے اور مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کی وہ گلیاں وہ نظارے جو ہمیں یاد آتے ہیں ابھی ان گھوڑوں نے اپنی منزل نہیں پائی، ہو سکتا ہے یہ سفر اور بھی کریں اور اس سفر پر نکلے ہوئے ان نوجوانوں کو میں صرف یہی کہوں گا کہ آپ جس کام میں بھی لگے ہوئے ہیں انتہائی محنت سے کام کر رہے ہیں اور انشاءاللہ آپ کو اللہ اجر دے گا ہر کسی کے نصیب میں سکھ کا سانس نہیں ہے وہ ہمارے پیارے کزن ریاض صاحب کے بہت ہی پیارے دوست شہباز صاحب تھے وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالی نے روزی تو آپ کو دینی ہے بس یہ دعا کیا کیجیے کہ آپ کو آسان روزی دے۔

یعنی زندگی میں بہت سی مشکلات دیکھیں اتنی مشکلات دیکھیں کہ اگر میں اپنی اولاد کو اپنے بچوں کو یہ بتانا شروع کروں تو پریشان ہو جائیں،کبھی ایسا وقت بھی آیا کہ زندگی اور موت صرف ایک گھڑی کے فرق کے ساتھ گزری اور اللہ نے مجھے بچا لیا اور پھر کبھی جدہ سی پو ٹ پر ان 90 میٹر بلند ستونوں کو کھمبوں کو روشنی کے کھمبوں کو رنگ کرنے کے لیے گیا تو اوپر سے جب نیچے دیکھا تو میری جان ایک لمحے کے لیے ہاتھوں سے نکلتی محسوس ہوئی لیکن الحمدللہ کبھی گھبرایا نہیں۔

میرے پیارے بچو بس میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ زندگی میں آپ کے اوپر بھی پہلی بات تو یہ ہے دعا کرتا ہوں کہ کبھی مشکل مقام نہ آئے لیکن جب کبھی مشکل مقام آئے تو اپنے گھر کی طرف دیکھنا میں جب گھبراتا تھا تو مجھے حوصلہ دیتا تھا اپنے ساتھ حوصلے والا ایک دوست لازمی بنایا ہے جو آپ کو مشکل وقت میں سہارا دے جس طرح میرا سہارا میرا اپنا ایک کزن درمان بنا تھا آپ بھی اپنے ساتھ ایک سہارا رکھیے جو ہر وقت آپ کو حوصلہ دیتا رہے۔

اپنے ماں باپ کی مجبوریاں آپ کو یاد کراتا رہے اپنے گھر بار کو آپ کو یاد کراتا رہے کہ آپ نے ابھی بہت کام کرنا ہے آپ نے کچے گھروں کو پکا بنانا ہے ،آپ نے بہنوں کی شادی کرنی ہے، اپنے بھائیوں کی شادی کرنی ہے، اپنے بھائیوں کو تعلیم دلانی ہے یہ نہ ہو کہ آپ وہاں محنت کرتے رہیں اور آپ کے پیچھے جو ہے وہ رہ جائیں کیونکہ محنت کر کے آپ ان کی محنت کو صحیح جگہ پہ استعمال کریں میں سب پردیسی بچوں کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ اپنے ماں باپ کا آپ نے دکھ بانٹنا ہے اور انشاءاللہ آپ تو خود اچھی جگہ چلے گئے ہو یہ بھی اللہ کا کرم ہوتا ہے کہ آپ کو کس جگہ لے جا یاگیا آپ نے مکہ اور مدینہ بھی دیکھنا ہے، آپ نے ماں باپ کو حج بھی کرانا ہے، اللہ پاک آپ کو خوش رکھے ،آباد رکھے ،پردیسی بچو سلامت رہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!