وہ مخض ایک تئیس سالہ لڑکی تھی اور نائن الیون کے سانحے کو آج سولہ سال بیت چکے تھے۔عالیہ اور ٹینا دونوں کے ماضی کا درد ایک جیسا ہی تھا۔تکلیف ایک ہی تھی۔مگر دونوں میں فرق صرف مذاہب کا تھا۔ٹینا کو اس کا حیرانگی سے دیکھنا بالکل بھی عجیب نہ لگا اور وہ اسے بتاتے ہوئے بولی”میرے بابا اور ماما جاب کرتے تھے۔ہم تین بہن بھائی تھے۔میں سب سے بڑی تھی۔پانچ افراد پہ مشتمل ہماری فیملی بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔مگر گیارہ ستمبر کی وہ اندھیری صبح جس نے مجھ سمیت سارے امریکیوں کو خون کے آنسو رولا دیا۔میرے ممی بابا آفس میں تھے۔اس وقت سکول سے ذرا بریک ملی تو میرے دونوں چھوٹے بہن بھائی ان کے پاس ان کے آفس چلے گئے اور میں سکول میں ہی رہی۔اس وقت سکول کے صحن میں بیٹھی اپنی دوست کے ساتھ لنچ شئیر کرنے میں مصروف تھی جب میری آنکھوں کے سامنے ایک جنگی طیارہ بلڈنگ سے ٹکرایا اور پاش پاش ہو گیا۔میں نے صرف چند منٹوں میں ہی بلڈنگ زمین بوس ہوتے دیکھی۔یہ منظر دیکھ کر میرے ہاتھ سے میرا لنچ بکس گر گیا۔ہر طرف لوگوں کا شور اور چیخ و پکار تھی۔پھر ایک اور بلڈنگ کے ساتھ بھی اسی طرح کا ایک طیارہ ٹکرایا اور وہ بلڈنگ بھی منٹوں میں ملبے کا ڈھیر بن گئی۔یہ سب کچھ میری ان آنکھوں کے سامنے ہوا اور جانتی ہو یہ سب تم مسلمانوں نے کیا تھا۔میں مسلمانوں سے بہت نفرت کرتی ہوں۔مگر تمہیں دیکھ کر نہ جانے میری نفرت کہاں غائب ہو گئی۔تم تو اس وقت بھی اٹھارہ سال کی ہو اور میں،میں تو مخض اس وقت آٹھ سال کی تھی۔یہ سبق ہم آج تک نہیں بھولے کہ مسلمانوں سے بڑھا دہشتگرد کوئی بھی نہیں ہے”۔
عالیہ ششدر رہ گئی۔اس وقت اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ دنیا میں اس کا غم کوئی بڑا غم نہیں ہے۔بلکہ لوگ بڑے بڑے درد پال کر بھی خوش مزاج ہیں اور کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ان کا دم کبھی نہیں گھٹتا۔اس کی داستان سن کر وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی۔جبکہ ٹینا اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔
تھوڑی دیر کے لئے دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی اور پھر عالیہ نے پہلی بار اس سے نارمل انداز میں بات کرتے ہوئے کہا”کیا مسلمانوں نے تمہارے ماں باپ کو مارا تھا”
’’ہاں مسلمانوں نے ہی مارا تھا اور آج مسلمان اس کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں‘‘ ٹینا نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا
’’کیا تم نے دیکھا تھا کہ مسلمان طیارے میں سوار تھے‘‘
ٹینا اس کے سوال پر حیران ہوئی”نہیں بس ہماری گورنمنٹ ذرائع نے پتا لگوایا تھا۔ہم دنیا کی سپر پاور ہیں۔ہر چیز کو کنٹرول کر سکتے ہیں”اس نے کہا
"اگر سپرپاور ہو تو کیسے ایک مسلمان نے امریکہ پہ حملہ کر کے وہاں کی بلڈنگ تباہ کر دیں۔ایسی ہوتی ہے سپرپاور،دیکھو ٹینا اگر مسلمان دہشت گرد قرار دیئے جاتے ہیں تو یہ بھی دیکھو کہ مسلمانوں کے علاوہ دنیا میں کونسا ایسا غیر مسلم ملک ہے جو دہشتگردی کا شکار ہے،کیا نائن الیون کے بعد تمہیں دربدر ہو کر یونہی سمندر میں بھٹکنا پڑا؟کیا شام کے مسلمانوں جیسا ظلم تم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے۔بالکل بھی نہیں۔تمہارے ملک میں نائن الیون کا حملہ صرف ایک ڈرامہ تھا کیونکہ آپ کی سپرپاور کو مسلمانوں کا خون کرنے کا بہانہ چاہئے تھا۔مسلمانوں پہ حملہ کرنے کے لئے سپرپاور نے وہ صرف ایک ڈرامہ رچایا تھا۔اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو تباہ کرنا تھا۔تم دیکھو تین ہزار لوگ نائن الیون میں مرے اور آج ڈیڑھ ارب مسلمان کس کرب کا شکار ہیں۔کیا سب مسلمانوں نے اس حملے کو افسوس ناک نہیں کہا تھا۔آج میں ملک شام سے بھٹکتی ہوئی یہاں تک پہنچ گئی۔مجھے نہیں معلوم آگے میرا حشر کیا ہو گا۔کیا مخض مسلمانوں سے نفرت کر کے تم سمجھ لو گی کہ مسلمان برے ہیں اور وہ ہی امریکہ کے تین ہزار لوگوں کے قاتل ہیں۔جن مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی آبرو ریزی آپ کے امریکن اور نیٹو کے فوجی کر رہے ہیں تم انہیں کیا نام دو گی۔امریکہ اگر سپرپاور ہے تو کیوں وہ آج تک افغانستان میں کامیاب نہیں ہو سکا اور کیوں عراق سے وہ شکست کھا کر لوٹا۔لیبیا اور شام کی جنگ میں شریک ہو کر وہ کیا کر رہا ہے۔نائن الیون بس ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ہم پہ روسی طیاروں نے بمباری کی اور سب چلے گئے۔مگر یہ سب کیوں ہوا ہمارا کیا گناہ تھا۔ذرا اس سب پہ غور کرنا۔میں تمہاری بہت احسان مند ہوں کہ تم نے مجھے بچایا مگر یہ یاد رکھنا مسلمان کبھی بھی نفرت نہیں پھیلاتے۔مسلمان تو خود اس نفرت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔یہ سب مخض تمہیں سمجھانے کے لئے ہے کہ سب کچھ مسلمان نہیں ہیں اور تم چند لمحات مسلمانوں میں رہ کر دیکھو تم جان لو گی کہ مسلمان کتنے امن پسند ہیں”وہ چپ ہو گئی۔اس کی بات کے جواب میں عالیہ ساری بات ایک لیکچر کی طرح اس کے گوش گزار دی۔اس نے پہلی بار عالیہ کو جوش میں بولتے دیکھا۔یہ شاید اس کا ایمانی جذبہ تھا جو اس کے اندر کی سب کمزوریاں نگل گیا۔جس مسلمان کا ایمان کامل ہو اس کی جسمانی کمزوریاں کبھی بھی اسے مات نہیں دے سکتیں۔ٹینا نے پہلی بار عالیہ کی بات پہ غور کیا۔وہ ہمیشہ پاس سے گزرتے مسلمانوں کو گالیاں دیتی۔برا بھلا کہتی اور انہیں پتھر بھی مارتی مگر پہلی بار ایک سچے مسلمان کے ساتھ بیٹھک ہوئی تو اسے اندازہ ہوا کہ آج کے دور میں اس دنیا میں سب سے مظلوم مسلمان ہیں جن کی قتل غارت سب سے زیادہ کی جا رہی ہے اور الزامات بھی انہی پہ تھوپے جاتے ہیں۔
عالیہ کی باتوں پہ غور کرتے ہوئے جیک اور ٹینا نے حیرانگی سے ایک بار اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں اطمینان اور سکون تھا۔سچ کی کڑواہٹ برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔مگر اس وقت جو آئینہ عالیہ نے جیک اور ٹینا کو دیکھایا وہ آج سے پہلے انہیں کسی بھی مسلمان نے نہیں دیکھایا تھا۔دونوں مسلمانوں سے شدید نفرت کی وجہ سے ان سے دوستی بھی نہیں کرتے تھے مگر آج اس اٹھارہ سالہ لڑکی نے جو حقیقت ان کے سامنے رکھی وہ ڈھکی چھپی نہیں تھی۔سچ میں تین ہزار مرنے والے امریکیوں کا بدلہ اب ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے لینے کے لئے انہیں ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے اور ہر محاذ پہ امریکہ کو شکست فاش ہو رہی تھی۔ٹینا سر جھکائے کچھ سوچتی رہی پھر ذرا توقف کے بعد بولی”شاید قدرت نے ہم پہ یہ حقیقت عیاں کرنی تھی تبھی ہمیں تم سے ملا دیا اور ہمارا ملن بھی ایک اجنبی ملک میں ہونا تھا اگر تم ہمیں نہ ملتی تو شاید مرتے دم تک میں اور جیک مسلمانوں سے بس نفرت ہی کرتے۔تم سچ کہتی ہو ایک انسان کی غلطی کی سزا دوسروں کو کیوں دی جائے۔ہم اب مسلمانوں سے کبھی نفرت نہیں کریں گے اور تم بس جلدی سے ٹھیک ہو جائو”
ٹھیک ہونے کی بات پہ عالیہ کے چہرے پہ ایک دم افسردگی چھا گئی۔