غور کرنا

0

خدارا ہوش میں آئیں اورووٹ دیتے وقت ملک سے مخلص لوگوں کا انتخاب کریں

جلسے جلوسوں میں حوا کی بیٹیاں ناچتی ہوئی نظر آتی ہیں،جو باعث شرم ہے

صبح جب آنکھ کھلی تو نیلگوں امبر بادلوں سے مزئین تھا، یوں لگا جیسے بارش ٹوٹ کر برسے گی گرمی کی شدت میں کمی واقع ہو گی لیکن کچھ دیر بعد سورج نے اپنا جلوہ دکھانا شروع کیا تو دماغ میں آنے والی پہلی سوچیں دم توڑتی ہوئیمحسوس ہوئیں یہی منظر آج کل ہماری سیاست میں نظر آتا ہے ۔نہ جانے کب کیا ہو جائے والا جملہ اب خوف بن کر اذھان کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ تکلیف سے یاد آیا کہ ہماری ریاست میں سیلاب زدگان کی تکلیف حد سے بڑھ گئی ہے گاؤں کے گاؤں ڈوب گئے جو لوگ بچ گئے وہ زندہ لاشوں کا پیکر نظر آتے ہیں ۔ ویسے تو زندہ لاشیں پوری دنیا میں گھوم پھر رہی ہیں لیکن اس وقت میرا قلم میری ریاست کے لیے اٹھا ہے ۔ ہر آئے دن ایک نئی جان لیوا تبدیلی آجاتی ہے کبھی بلوں پر ٹیکسوں کی صورت میں تو کبھی پیٹرول کی قیمتوں کے سلسلے میں کبھی اجناس تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ75سال صرف اسی مصرعے پر غور کرتے ہوئے گزر گئے کہ:
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

لیکن اشک بار آنکھیں آخر کب تک امید کا دامن تھام کر بینائی سنبھال سکتی ہیں ۔
میرا شعر ہے کہ:
سانپ پلتے ہیں آستینوں میں بیٹھ جاتے ہیں پھر خزانوں پر

کچھ ملکی صورتحال75برسوں سے جوں کی توں ہے ۔ مگر عوام ہیں کہ حکمرانوں کا چناؤ کرتے وقت تذبذب کا شکار ہوتے ہیں ۔ بےدھیانی میں دولت پرستی کے نشان پر مہر ثبت کر دیتے ہیں ۔ بعد میں تلملاتے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوگئی نہ:
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

خدارا ہوش میں آئیں اور ہوش والوں کا انتخاب کریں ضمیر کی بات سنیں ۔ ضمیر سے متعلق ایک اور بات دھیان میں آئی کہ لوگ دھیان نہیں دے رہے اپنے ضمیروں پر مثال سامنے ہے ۔

آج کل کے معاملات ہیں جبکہ جلسے جلوس کی آبیاری عروج پر ہے ۔ پورے مجمعے میں سب سے آگے حوا کی بیٹیاں ناچتی ہوئینظر آتی ہیں ۔بھلا یہ کونسی حکمت عملی ہوئی ۔ حد سے تجاوز کسی بھی معاملے میں تباہی کا باعث بنتا ہے ۔ ہوش کے ناخن لینے والا محاورہ اپنی آخری سانسیں پوری کر رہا ہے ۔ مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وسائل دب کر رہ گئے ہیں ۔ قیامت کی جانے کون کون سی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں اور کون کون سی ظہور پزیر ہونے والی ہیں ۔ اچھے اور مخلص درد انسانیت رکھنے والے کی آرزو تو اب یوں لگتی ہے کہ:
خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

لیکن ہمیں اپنے ملک و قوم کی خوشحالی کےلیے کسی قیامت کا انتظار نہیں کرنا ہے ۔ بلکہ ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے کہ دنیا مثال دے ۔ اس کے لیے تمام پاکستانیوں کو خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا انشااللہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے ۔

اللہ تبارک تعالی پر مکمل یقین کرتے ہوئے ہمیں پر امن اور احسن عزت دار طریقے سے اپنے ملک کی ترقی و ترویج کےلیے کوشش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔
انمول گوہر/لاہور

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!