مکافات عمل کے بارے میں اکثر بات ہوتی ہے لیکن یہ قانون مکافات عمل ہے کیا اور یہ انسانی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا اس سے فرار ممکن یا کسی کو اس سے استسنیٰ بھی حاصل ہے اور اسلام نے اس قانون کو کیوں اہمیت دی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا صرف عمل ہی نتیجہ خیز ہوتا ہے یا پھر خیالات اورسوچ بھی انسانی شخصیت پر اثرات مرتب کرتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور کے دماغ میں گردش کرتے ہیں اوران کا تعلق ہماری عملی زندگی ہے۔ جہاں تک مکافات عمل کا تعلق ہے ہے قرآن حکیم کی سورہ لقمان کی آیت 16 میں قانون مکافات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔قرآن حکیم کی اس سورہ میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے اسے بتاتے ہیں کہ بیٹا یاد رکھو، تمہارا کوئی بھی عمل چاہے رائی کے دانے کے برابر ہو یا کسی پتھر کے اندر چھپا ہو، کائنات میں کہیں بھی ہو، وہ ضرور سامنے آئے گا۔ وہ قانون بنانے والا خدا بہت باریک بین اور ہر حالت سے باخبر ہے۔ بہت سادہ اور مختصر انداز میں بات سمجھا دی ہے۔ دنیا کے وہ لوگ جو وحی اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے لیکن وہ قانون مکافات عمل یعنی LAW OF CAUSE AND EFFECT پر یقین رکھتے ہیں اور اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ AS YOU SOW, SO SHALL YOU REAP یعنی جو بوگے ، وہی کاٹو گے۔ یہ قرآن حکیم کی تعلیم وَاَن لیس للا اِنسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی کے عین مطابق ہے۔ سائنس کی دنیا میں نیوٹن نے اپنے تیسرے قانون میں یہی دریافت کیا تھا کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ یہ عالمگیر سچائی ہے کہ کوئی بھی عمل رائیگاں نہیں جاتا اور وہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ دین اسلام کا دارومدا ر اللہ کے قانون مکافات عمل پر ہے اور یہی قانون پوری کائنات میں لاگو ہے کہ ہر کام اور ہر عمل بلکہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اپنا نتیجہ مرتب کرتے ہیں۔
کائنات کی ہر شے خدا کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کی پابند ہے جسے اہل مغرب LAW OF NATURE کہتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ خارجی دنیا PHYSICAL WORLD کی حد تک اس قانون کو درست سمجھتے ہیں لیکن انسانی دنیا کے لئے اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ مثلاََ وہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ مضر کھانا کھانے سے انسانی صحت خراب ہوجائے گی لیکن چوری اور فراڈ سے حاصل کیا ہوا کھانا کھانے سے کوئی بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پیش نظر انسان بھی ایک حیوان ہے اورایک جانور کو چاہے چوری اور فراڈ سے حاصل ہوئی خوارک دیں یا حلال کمائی سے ، حیوان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایسے لوگ چونکہ وحی پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے وہ انسان کو ایک حیوان ہی تصور کرتے ہیں اور انسانی شخصیت اور اس کی نشوونما پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ خدا نے اپنی آخری کتاب میں کیا حقیقت بیان کی ہے کہ جب لوگ کائنات اورانسان کی تخلیق پر غور کریں گے تو حقیقت کی طرف آتے جائیں گے۔ وہ اہل دانش جو وحی پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان محض حیوان ناطق یا SOCIAL ANIMAL نہیں بلکہ اس کی زندگی کا ایک انسانی پہلو بھی ہے اور اس کی بنا پر اب وہ اخلاقی اقدار ETHICAL VALUES ُ پر بہت زور دیتے ہیں۔ مغرب میں ہر شعبہ یہاں تک کہ سائنسی تحقیق کے شعبہ جات میں بھی اخلاقیات کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ اگر اخلاقیات اور اقدار کو نظر انداز کردیا جائے تو انسان محض ایک حیوان بن جاتا ہے۔ کسی نے خوب کہا کہ دھوکہ لوٹ کر اسی کے پاس آتا ہے جو دھوکہ دیتا ہے۔ دھوکہ دہی تمام معاشرتی بگاڑ کا باعث ہے ان کا تعلق ذاتی زندگی سے ہو اجتماعی زندگی سے اور یہ مذہب سے متعلق ہو یا عام امور سے۔ اسی لئے فرمان رسول اکرم ﷺ ہے کہ جس نے دھوکہ دیا وہ ہم سے نہیں۔ کائنات میں کوئی عمل بھی بے نتیجہ نہیں اس لئے یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہم عمل میں توخود مختار ہیں لیکن نتیجہ ہم بدل نہیں سکتے ۔یہی قانون مکافات عمل ہے اور دین کی عمارت اسی پر استوار ہے۔
اب قارئین کی اطلاع کے لئے دو کتابوں کا ذکر ہے۔ پہلی کتاب سفر وسیلہ ظفر ہے جو سویڈن کی ایک اہم انسان دوست سماجی اور سیاسی شخصیت قاضی ظفر الحق کی سوانح حیات ہے۔ ظفرالحق قاضی ایک طویل عرصہ سویڈن میں مقیم رہے اور اس اعتبار سے وہ سویڈن میں پاکستانی کمیونٹی کے ایک عہد کا نام کا ہے۔ وہ 20 جون 2017 کو راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی زندگی سیاسی، سماجی اور انسانی خدمت کی جدوجہد میں گزری۔ان کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے تھا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی تھے اور پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سویڈن تشریف لے آئے ۔ سویڈن میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مصروف عمل رہے۔ خوش آئند امر یہ ہے ان کی سوانح حیات ” سفر وسیلہ ظفر” مرتب کرکے نہ صرف انہیں بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے بلکہ ان کی خدمات کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا ہے۔ اس کتاب کے مرتب کرنے میں قاضی ظفر الحق کے نواسے درویش سلیمان راجہ نے خاندان کے افراد خصوصاََ قاضی ظفرالحق کے کزن جناب محمد صدیق صاحب سابق مشیر انکم ٹیکس محتسب ،پاکستان کی رہنمائی میں مرتب کی ہے۔ یہ کتاب سویڈن میںپاکستانی کمیونیٹی کی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کرتی ہے اس لئے تاریخ کے طالب علموں کے لئے یہ ایک بہت مفید کتاب ہے۔ دوسری کتاب بچوں اور نوجوانوں کے لئے راقم کی تحریر کردہ کتاب سبق آموز کہانیاں 2 کا انگریزی ترجمہ A Collection Of Delightful Stories For Children II شائع ہوگئی اور ایمزون سے دستیاب ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب اردو میں نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد نے شائع کی تھی اور بہت مقبول ہوئی ۔ انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والے والدین اور بچوں کا تقاضا تھاکہ یہ کتاب انگریزی میں شائع ہونی چاہیے جو اس اشاعت سے پوری ہوگئی ہے۔ توقع ہے کہ انگریزی زبان بولنے والے اس کتاب سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔