سویڈن میں عام انتخابات کے 94 فیصد نتائج کا اعلان ہوچکا، دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کی برتری

اسٹاک ہوم (زبیر حسین) انتخابات کے نتائج کے مطابق دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے درمیان فقط ایک نشست کی برتری ہے، نتائج حیران کن یوں رہے ہیں کہ حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹس تو روائیتی طور پر صفِ اول کی جماعت رہی جبکہ نسل پرست جانی جانے والی جماعت سویڈش ڈیموکریٹس دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔

سویڈن کی تاریخ ہمیں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ موڈریٹ پارٹی نے اپنی مقبولیت کھوئی اور تیسرے درجے کی جماعت بن کر سامنے آئی، دوسری جانب انتخابات میں پہلی بار حصہ لینے والی اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کی نمائندہ جماعت پارٹیت نیانس کہیں بھی جگہ بنانے میں ناکام رہی مگر سویڈن کے بیشتر اضلاع میں پارٹیت نیانس کا حکمران سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ رہا ، پارٹیت نیانس مختلف اضلاع میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔

کامیاب ہونے والی جماعتوں کے نتائج کچھ یوں رہے ہیں، سوشل ڈیموکریٹس 108 پارلیمانی نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر، سویڈش ڈیموکریٹس 73 پارلیمانی نشستو ں کے ساتھ دوسرے ، موڈریٹس 67 پارلیمانی نشستوں کے ساتھ تیسرے ، سینٹر پارٹی 24 پارلیمانی نشستوں کے ساتھ چوتھے، لیفٹ پارٹی 24 پارلیمانی نشستوں کے ساتھ پانچویں ، کرسچن ڈیموکریٹس 19 پارلیمانی نشستوں کے ساتھ چھٹے، گرین پارٹی 18 نشستوں کے ساتھ ساتویں ،جبکہ لبرل پارٹی 16 نشستوں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر رہی۔

یوں مجموعی طور پر 349 پارلیمانی نشستوں پر انتخابات ہوئے ۔جس میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان تناسب کچھ یوں رہا کہ گرین ریڈ بلاک جو کہ بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد ہے ان کا مجموعی نتیجہ 174 پارلیمانی نشستیں جبکہ الیانسن جو کہ دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد کہلاتا ہے ان کا مجموعی نتیجہ 175رہا ، یوں دائیں بازو کی جماعتوں کو فقط 1مینڈیٹ سے برتری حاصل ہوچکی ہے البتہ ابھی 243 پولنگ اسٹیشنز اور بیرونِ ملک یا ڈاک کے ذریعے حاصل ہونے والے ووٹوں کی گنتی باقی ہے جو کے بدھ کے روز تک متوقع ہےاس کے بعد واضح صورتحال سامنے آئے گی۔

دوسری جانب صوبائی اور شہری نشستوں کے مکمل نتائج بھی چند روز میں متوقع ہیں۔ان تمام مراحل کے بعد 26 ستمبر کو پارلیمنٹ اسپیکر کا انتخاب کرے گی یا موجودہ اسپیکر کو عہدہ پر برقرار رکھے گی۔ اسپیکر نئے وزیراعظم کو نامزد کریں گے جو 27 ستمبر کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ اگر نامزد وزیراعظم اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے تو اسپیکر کسی اور رکن اسمبلی کو وزیراعظم نامزد کریں گے جو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے کے اپنا عہدہ سنبھالے گا۔

Comments (0)
Add Comment