حقیقت تسلیم کر لیں

عمران خان نے ملکی سلامتی اور معیشت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ اس بیانیہ کا شور مچایا گیا۔ من پسند ٹی چینلز پر ٹاک شوز کرائے گئے۔ عوام کو یہی پیغام دیا گیا ساری تباہی و بربادی عمران خان کی حکومت نے کی ہے۔ حیرت اس وقت ہوئی جب امپورٹڈ حکومت نے آئی ایم ایف کو جو معلومات فراہم کیں اس میں ملکی ترقی کی رفتار وہی دکھائی جو سابق وزیر خزانہ فرماتے ہیں۔مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنانے کی وجوہات بھی آڈیو لیک کے بعد سامنے آ گئی ہیں۔

اسحاق ڈار کی انٹری ایک ٹیسٹ کیس ہے اگر ڈیل کے مطابق سب ٹھیک چلتا رہا تو مفرور مجرم میاں نواز شریف کی وطن واپسی ہو گی اور انکو بھی کلین چٹ دی جائے گی۔اگر حالات اسحاق ڈار کے لیے خراب ہوئے تو وہ ملکی معیشت کو وہاں لے جائیں گے کہ آنے والی نئی حکومت اسکو نہ سنبھال سکے۔

ان لوگوں کی یہی پالیسی رہی ہے اگر ہم حکومت میں نہیں ہیں تو کسی دوسرے کو بھی نہیں کرنے دیں گے۔ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کرنا اور مارکیٹ میں طلب و رسد کو کنٹرول کرنا سرمایہ داروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔اسحاق ڈار کے آتے ہی روپے کی قدر میں اضافہ اسی سلسلے کی کڑی ہے اسٹاک ایکسچینج میں اکثر سرمایہ دار وں کےن لیگ سے قریبی مراسم ہیں۔ اسحاق ڈار نے ماضی میں ان لوگوں کو بے پناہ مالی فائدے پہنچائے ہیں۔ آج اسحاق ڈار کو انکی ضرورت پڑی ہے تو مارکیٹ میں ڈالرکی رسد کو بڑھا کر قیمت کم کر دی گئی ہے۔

صنعتی ترقی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تیل و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے صنعتکاروں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ صنعتوں کو تالا لگا دیں۔ ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال میں ترقی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہے گی۔ وزیراعظم نےخوشخبری سناتے ہوئے فرمایا،ابھی تو اسحاق ڈار کے واپسی کی خبر آئی ہے اور ڈالر نیچے آگیا ہے۔ یہ سب گورکھ دھندا اور سیاسی نعرہ ہے۔ اسحاق ڈار کی واپسی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی ہے۔ انکی آمد سے قبل نیب میں ترامیم نے انکے لیے راستہ ہموار کیا ہے۔

امکان یہی ہے کہ اسحاق ڈار کو معیشت میں لینڈ مائنز بچھانے کے لیے بھیجا گیا ہے تاکہ اگر عمران خان حکومت میں آئیں تو وہ بھی معیشت کو کنٹرول کرنے کے قابل نہ ہوں۔ عوام سوال پوچھتی ہے اسحاق ڈار اگر ملزم تھا تو وزیر خزانہ کیسے بن گیا ؟ اور اگر بے گناہ تھا تو پانچ سال سے لندن کیوں فرار تھا ؟

سینٹ میں حلف برداری کی تقریب ہوئی عدلیہ نے ریلیف دے دیا۔ کیا اسطرح کا کھیل کسی مہذب معاشرے نظر نہیں آتا ہے۔ پوری د نیا میں ہمارے اداروں کا مذاق بنا دیا گیا۔ پہلے این آر او ون دیا گیا آج این آر او ٹو دیا گیا۔ حکمران جماعت کہتی ہے آزاد عدلیہ ہے۔ کیا عدلیہ کی آزادی یہی ہوتی ہے کہ من چاہے لوگوں کے لیے انصاف کے تمام تقاضوں کو پسے پشت ڈال دیا جائے، یہ کہہ کر کہ سیاسی مقدمات ہیں۔

یہ وہی اسحاق ڈار ہیں جنہوں نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں بیان حلفی جمع کروایا تھا۔ وعدہ معاف گواہ بنے تھے۔ اس کیس کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ اگر انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے تو آج معاشی حالات ایسے نہیں ہوتے۔ ہمارے عدالتی نظام نے ان مجرموں کو کبھی سزائیں نہیں دیں جنہوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے این آر او لینے والوں نے کیا قیمت ادا کی ہے اور کس کو دی ہے۔پاکستان کی دشمن عالمی اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک پر ان لوگوں کو مسلط کیا جو انکے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام نے ملک کو دیوالیہ پن کی گلی میں دھکیل دیا ہے۔ عالمی طاقتیں یہی چاہتی ہیں ملک میں فوری الیکشن نہ ہوں تاکہ معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں ہمیں مختلف قسم کے معاملات میں الجھا کر رکھا ہوا ہے کبھی آڈیو لیک تو کبھی ویڈیو لیک۔ پنجاب اور کے پی کے کی حکومت کو گرانے اور گورنر راج لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کبھی لونگ مارچ کا شوشہ، سیاسی پارٹیاں اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپوزیشن حکومت کو گرانے کی فکر میں لگی ہوئی ہیں۔

ملک کس بحران سے گزر رہا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کسی کو فکر نہیں ہے۔ ادارے سیاسی توڑ جوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ملکی آبادی کے تیس فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں۔ سفید پوش طبقہ دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے پریشان ہے ۔ اگر یہی حالات رہے دو وقت کی روٹی کے لیے لوگ مرنے اور مارنے پر اتر آئیں گے۔ افسوس کے ساتھ ایک بھی ادارہ ملکی سلامتی کے لیے کام نہیں کر رہاہر ادارہ طاقت کے حصول کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے۔

اگر فوری اور شفاف انتخابات نہیں کرائے گئے ملک مزید معاشی طور پر تباہ ہو جائے گا۔ جس کا فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوگا۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ وزیر خزانہ تبدیل کرنے سے اس وقت ملکی حالات بہتر نہیں ہو سکتے ہیں سرمایہ داروں اور بیرونی سرمایہ کاروں کو موجودہ حکومت اور ملکی حالات پر اعتماد نہیں ہے واحد حل صاف اور شفاف انتخابات ہیں۔ اس حقیقت کو ہم جتنا جلدی تسلیم کر لیں اتنا ہی اچھا ہے ۔

Comments (0)
Add Comment