یورپ پانی کا بلبلا نکلا …

یورپی یونین دنیا میں سب سے مضبوط سمجھا جانے والا اتحاد اور صدی کی سب سی بڑی معیشت کے دعوے دارملکوں کا حامل آج روس کی گیدڑبھپکیوں سے تلملا اٹھا ہے۔ کورونا کے بعد کا افراطِ زر،روس یوکرین جنگ اور اب گیس پائپ لائن کے دھماکوں نے یہ ظاہر کردیا کہ بڑا اتحاد اور مضبوط معیشت کے دعوے سب پانی کا بلبلا نکلے،غور طلب بات یہ ہے کہ ہم نے ہر دور میں وطنِ عزیز پاکستان کو معاشی مشکلات اور سیاسی بحرانوں کی دلدل میں پھنسا اور دھنسا دیکھا مگر بطور قوم ہمارے صبرکا پیمانہ کبھی لبریز نہیں ہوا، صدی کا سب سے بڑی وبا کورونا وبا کی شکل میں جب دنیا پر ٹوٹا تو یورپ کی بازاروں میں ٹشو پیپر تک ملنا مشکل ہوگیا مگر پاک وطن کے ہم وطنوں کی قربانی اور ایثار کا جذبہ قابلِ دید رہا کہ لاک ڈاؤن میں تعینات پولیس اہلکاروں کو گھروں سے کھانے بنا کر کھلانے کے منظر عوام نے سوشل میڈیا پر بھرپور دیکھے،ہم نے ہر دور میں اپنی قوم کے ہر عمر کے افراد سے بس یہ ہی سنا کہ پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے۔

حالیہ ٹک ٹاک پر وائرل ویڈیو کی بات کی جائے تو ایک ٹک ٹاک ٹرینڈ یوں وائرل ہوا ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ میں پاکستان میں کیوں نہیں رہنا چاہتا تو پیچھے سے ایک ادھیڑ عمر زندگی سے ستائے شخص کی گالی کے ساتھ آواز آتی ہے کہ بجلی نہیں ہوتی، تو گویا پاکستان ہم نے اس لیے چھوڑا کہ بجلی نہیں ہوتی، یورپ پہلے ہی توانائی کے بحران کا رونا رو رہا تھا کہ اب ناردرن اسٹریم گیس پائپ لائنوں کے سمندر میں ہونے والے دھماکے جسے مبینہ طور پر روس کی جانب سے دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے، ان دھماکوں کے باعث گیس پائپ لائنوں سے ہونے والے اخراج کو توانائی کے بحران کی اہم وجہ بنا دیا گیا،بہت سے ممالک کی جانب سےکرسمس میں برقی کمکموں کی سجاوٹ پر پابندی عائد کردی گئی، کہیں پر راتوں میں اسٹریٹس لائٹ بند تو کہیں پر لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوچکا، یہاں تک کے اٹلی میں بجلی کے نرخوں میں 500 فیصد اضافہ کردیا گیا جب کہ یورپ بھر میں موسم سرما میں گرم پانی اور ہیٹر کی عدم دستیابی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔

کچھ ممالک میں گھروں کے کرائے میں 10فیصد اضافے تک کا اعلان بھی اسی امر میں کیا گیا ہے کہ گرم پانی اور ہیٹر کسی طرح بند نہ کیا جائے۔مطلب یہ کہ دنیا کے وہ ممالک جو ٹیکنالوجی میں اپنی مثال آپ جو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے پیٹرول کی بجائے گیس اور بجلی کے ذریعے کاریں اور بسیں چلانے کے حق میں رہےآج ان کی حالت یہاں تک آن پہنچی کے بجلی اس قدر مہنگی کردی گئی کہ لوگوں کی نصف ماہانہ آمدنی بجلی کے بلوں کی نذر ہونے لگی۔ دوسری جانب اگر ان ممالک کی آبادی کا موازانہ وطنِ عزیزسے کیا جائے تو یورپ کے چار بڑے ممالک کی مجموعی آبادی بھی پاکستان کے برابر نہیں، ہم نے بارہا دیکھا کہ شب معراج ہو شب برات ہو ، شب قدر یا پھر میلاد النبی ﷺ برقی قمکموں کی چمک دمک ہمیشہ قائم رہی یہاں تک کے عید کی چھٹیوں میں لوڈ شیڈنگ سے اجتناب کی مثالیں عام رہیں،70سال سے سنتے چلے آئے کہ 100سال مکمل ہونے کے بعد سوئی میں گیس کے ذخائر ختم ہوجائیں گے مگر دوسری جانب آج بھی سی این جی اسٹیشن گیس کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔

اگر جنگی حالات اور دشمن ممالک کی بات کی جائے تو یورپی یونین کے ستائس ممالک کا فقط ایک دشمن روس جبکہ پاکستان کا نہ کوئی اتحادی نہ ہی کوئی دوست خطے میں پاکستان دشمن ممالک کے بیچ تن تنہا اور اکیلا۔آج جہاں یورپ توانائی کے بحران اور جنگی حالات کا رونا روتا دکھائی دے رہا ہے جب کہ ہم نے یہ حالات 70 سال میں ہر روز دیکھے ہیں شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستانی قوم اور سیاستدانوں کی ترجیحات توانائی کا بحران یا مہنگائی نہیں بلکہ ہیکر کے لیکس اور جیکر کے ششکے ہیں۔ یہاں اگر یورپ کی عوام اور سیاستدانوں کی بات کی جائے تو یورپ کے چند ممالک میں حالیہ دنوں انتخابات کی گہماگہمی رہی مگر کسی کو اس بات سے غرض نہیں کہ سیاست میں کیا ہونے جارہا ہے سب کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو کیسے پایا جائے، ہمیشہ کی طرح یورپی عوام نے نفسانفسی کا ثبوت دیتے ہوئے بازاروں سے موم بتیاں یوں سمیٹنا شروع کردی ہیں جیسے یورپ پتھروں کے دور کی جانب واپس لوٹ رہا ہو۔

قصے کو کچھ یوں تمام کریں کے پاکستان ایک کمزور معیشت، بڑی آبادی، سیاسی بحرانوں ، زلزلوں، سیلابوں اور دشمن ممالک کی اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود قائم و دائم ہے جبکہ نارد اسٹریم گیس پائپ لائنوں میں دھماکوں کے باعث خارج ہونے والی گیس سمندر کے پانی میں جس طرح پانی کے بلبلے بنا رہی ہے ویسے ہی یورپ کی مصنوعی طاقت پانی کا بلبلا بن کر سامنےآنے لگی ہے۔ چند ماہ قبل یورپ دنیا بھر میں مذہبی منافرت، امتیاز پسندی،اسلاموفوبیا اور مہاجرین کی آمد کے مسائل کی وجہ سے جانا جارہا تھا آج اسی یورپ کے حالات کچھ ایسے بدلے ہیں کہ سب کو اپنی آمدنی اور اخراجات کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment