پہلی سعادت (حصہ سوم)

آج خانہ کعبہ میں آئے ہوئے مجھے چھ روز بیت چکے تھے۔ان چھ دنوں میں،میں نے مختلف اتفاقات ہوتے دیکھے۔حرم شریف پہنچ کر میں اپنے بیوی بچوں کو فون کرنا بھی بھول گیا تھا۔کعبہ میب پہلے دن میں نے ایک پچاس سالہ مرد دیکھا جو اسی سالہ اپنی بوڑھی ماں کو کندھوں پہ اٹھائے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔اس کی سانس بالکل بھی نہ پھولی اور روانی سے چل رہا تھا،آنسو بہا رہا تھا۔کیا دنیا میں اتنے خوش قسمت لوگ بھی ہوتے ہیں؟ جو والدین کو اپنے کندھوں پہ اٹھا کر عمرہ کی سعادت حاصل کرنے آتے ہیں اور ان لوگوں کی بھی خوش قسمتی جن کے لئے بلاوے کا سبب اس وقت بن گیا جب وہ چلنے پھرنے قابل بھی نہ تھے۔حرم پاک میں،میں نے ہزاروں زائرین کو کندھے سے کندھا ملا کر چلتے دیکھا۔ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا۔حرم شریف وہ واحد جگہ ہے جہاں امت مسلمہ کا ہر فرد متحد نظر آتا ہے۔کاش ہم مسلمان حقیقی زندگی میں بھی ایسے ہی متحد ہو جائیں تو ہمارا زوال ختم ہو جائے۔ان چھ دنوں میں،میں نے عمرے کے تمام ارکان پورے کئے۔پاکستان سے آئے بزرگ علم الدین نے بھی ہر معاملے میں میری رہنمائی کی۔ان کے ساتھ لمحے گزار کر مجھے بہت اچھا لگتا۔شاید مجھے ان سے انسیت ہو گئی تھی۔ہم دونوں نے عمرہ کی ادائیگی ایک ساتھ کی اور مکہ سے مدینہ جانے کا ارادہ کیا مگر اس سے پہلے میں غار حرا اور شہر طائف دیکھنا چاہتا تھا۔ساتویں دن میں ان بزرگ علم الدین کے ساتھ غار حرا کی زیارت کی غرض سے نکل پڑا۔عمرہ کی ادائیگی سے پہلے مجھے غار یاد تھی نہ ہی طائف اور نہ مجھے غار ثور کا علم تھا۔میں سفر طائف کے بارے پڑھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ پتھر برسائے گئے۔یہاں تک کہ پیغمر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں جوتے خون سے بھر گئے۔میں نے یہ سب سکول میں پڑھا تھا مگر رفتہ رفتہ دوریاں بڑھتی گئیں میں نے دنیا کے پیچھے بھاگتے بھاگتے سب کچھ بھولا دیا۔میری آنکھوں سے آنسو اس وقت جاری ہوئی جب میں نے غار حرا کو بہت قریب سے دیکھا۔یہی وہ جگہ تھی جہاں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن رات عبادت کرتے اور اپنی امت کی بخشش کی دعا کرتے۔یہیں پہ پہلی وحی کا بھی نزول ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری اتنی فکر تھی۔وہ رات مصلحے پہ سربجسود ہو کر ہم امتیوں کی بخشش کی دعائیں مانگتے۔کتنی بڑی شرمندگی کی بات تھی کہ میں نے اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات بھولا دیں تھیں جو ہم سب کی خاطر بخشش کی دعا فرماتے۔کیا میں اس قابل ہوں کہ مدینہ منورہ جا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور پہ حاضری دے سکوں۔مجھ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ میں دونوں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ سکوں۔غار حرا میں گزرے میرے چند لمحات مجھے اس دور میں لے گئے جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں آئے ہوں۔میں نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنے گالوں پہ بہتے آنسو صاف کئے۔

’’جانتےہو فرذند یہ غار بھی عام غاروں جیسی ہی تھی مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اس غار میں پڑے تو کتنی مقدس ہو گئی۔سوچو اگر ہم بطور امتی اپنا ہر فرض نبھائیں تو کتنے بلند مرتبہ ہو سکتے ہیں۔مگر افسوس ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات چھوڑ کر اپنے ساتھ ہی ظلم کیا۔ہم پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں‘‘بزرگ علم الدین نے وہاں دیر سے کھڑے ہونے کے بعد خاموشی کو توڑا

’’مجھے امت کا نہیں پتا،مجھے اپنا پتا ہے میرے ہاتھ گناہوں سے بھر چکے ہیں۔میں اس دلدل میں اس حد تک دھنس چکا ہوں کہ باہر نکلنا میرے لئے محال ہے۔میں اس امید کے ساتھ یہاں آیا ہوں کہ مجھے معاف کر دیا جائے گا مگر یہ اتنا مشکل ہے میرے لئے سوچنا بھی۔کاش میں ان امتیوں میں شامل ہو جائوں جن کی بخشش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ہو جائے‘‘میں نے جواباً کہا

’’فرزند ہماری بخشش تو ہونی ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک آنے والے اپنے تمام امتیوں کے لئے بخشش کی دعا مانگی ہے تو ان امتیوں میں ہم بھی ہونگے‘‘علم الدین صاحب نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیا۔

’’آپ اتنے پراعتماد کیسے ہیں،میں تو اب تک خوف میں مبتلا ہوں۔کیونکہ میرا ماضی مٹ نہیں سکتا اور میرے ماضی میں پینتیس سال شامل ہیں‘‘میں نے بے یقینی سے ان کی طرف دیکھ کر کہا’’جس دن تم اس بلاوے کا مقصد سمجھ گئے اس دن تم بھی پراعتماد ہو جائو گے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہی ہمیں عذاب الہی سے محفوظ رکھے گی۔ورنہ ہمارے اعمال میں کوئی پارسائی نہیں ہے جو جنت کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے‘‘وہ مسکرائے’’کاش ایسا ہو جائے مگر میرے لئے جواب دینا بہت مشکل ہو گا‘‘’’تم کعبہ آئے ہو فرزند تم مغفرت کی دعائیں مانگوں،ابھی آئو واپس چلتے ہیں۔

ہمیں طائف کی طرف بھی سفر کرنا ہے‘‘یہ کہہ کر علم الدین صاحب آگے بڑھ گئے تو میں بھی دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھانے کے بعد ان کے پیچھے چل پڑا۔تھوڑی دیر میں ہم مسجدالحرام پہنچ گئے تو ظہر کا وقت شروع ہو چکا تھا میں نم آنکھوں کے ساتھ ایک کعبہ کی طرف دیکھا میری حالت پھر سے ویسی ہی ہو گئی جیسی پہلے دن ہوئی تھی۔میں گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھ گیا اور پھ دوزانوں ہو گیا۔آنسو میری آنکھوں سے چھلک رہے تھے۔میں دیر تک وہیں سربسجود ہو کر بیٹھا رہا۔

وقت اپنی رفتار سے گزرتا جا رہا تھا۔مکہ مکرمہ آئے ہوئے آج مجھے ساتواں روز تھا۔میں ہر صبح جب بھی خانہ کعبہ کی طرف دیکھتا تو اس سے کبھی نظریں نی ہٹا سکتا۔میں ہر صبح جب بھی حرم پاک آتا تو ایک نیا منظر دیکھتا۔یہ منظر بھی کتنی دلکش تخلیق تھی۔مجھے آنکھیں بنانے کا مقصد بھی آج ہی سمجھ میں آیا تھا۔میں نے آج تک یہ آنکھیں صرف لوگوں کی طرف دیکھنے کے لئے استعمال کیں۔ان کی خامیاں دیکھنے کے لئے ہمیشہ دوسروں پہ نظر رکھی مگر آج مجھے حقیقی طور پر ادراک ہوا کہ ہماری آنکھیں تو صرف دیدار کے لئے بنی ہیں۔کتنے افسوس کی بات تھی میرے گھر میں فریم کی گئی بڑی بڑی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصاویر دیوار پہ سجی تھیں مگر میں نے کبھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔شاید اس وقت میری آنکھیں صرف ظاہری طور پہ چیزوں کا مشاہدہ کرتی تھیں۔کسی مسلمان کے لئے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس نے خانہ کعبہ کی تصویر بھی نہ دیکھی ہو اور اچانک خانہ کعبہ اس کے سامنے آ جائے۔شاید یہی سعادت میرے لئے خانہ کعبہ سے محبت کی ابتداء تھی اور میں ان سات دنوں میں اس حد تک خانہ کعبہ کی محبت میں مبتلا ہو گیا کہ میں نے پھر کمیپ جانا بھی چھوڑ دیا۔صرف ضروری سامان لینے کے لئے جاتا اور بزرگ علم الدین صاحب کا مستقل قیام ہی وہیں پہ تھا۔غار حرا پہ جانے کے علاوہ وہ صرف کیمپ سے کچھ چیزیں لینے خانہ کعبہ سے باہر نکلے تھے مگر وہ وقت ان کے لئے بہت کٹھن ہوتا۔اسی چیز کو دیکھ کر ان سے میں نے پوچھا کہ آپ خانہ کعبہ سے باہر نکل کر اتنے گھبرائے ہوئے کیوں تھے؟۔تو جواب میں وہ دیر تک مسکراتے رہے پھر میرا کندھا تھپتھپایا’’جن سے محبت ہو نا بیٹے ان سے دور جانے کا دل کس کا کرتا ہے۔آج جب ستر سال سے زیادہ کا ہو چکا ہوں لگتا ہے کہ زندگی کی مدت بس لمحوں پہ محیط ہے جو باقی رہ گئی ہے۔میں باہر جانے سے اس لئے خوف زدہ ہوتا ہوں کہ کہیں خانہ کعبہ سے دور جا کر میری موت نہ ہو جائے اور میں اس وقت موت کا شکار ہو جائوں جب میری آنکھوں کے سامنے خانہ کعبہ نہ ہو۔

مجھے ڈاکٹر نے سفر کرنے سے منع کیا تھا مگر میں نے پھر بھی انتظار نہ کیا اور یہاں چلا آیا۔میری خواہش ہے کہ میری موت خانہ کعبہ یا مسجد نبوی میں ہو۔ابھی مسجد نبوی کا سفر بہت طویل ہے بیٹا۔مجھے چھ گھنٹے تک ان مقدس مقامات سے دوری کا کرب سہنا ہو گا جن کے دیدار کے لیے میں ستر سال تک تڑپتا رہا۔اب بھلا میں کیسے یہ در چھوڑ کر ان سے دور جا سکتا ہوں‘‘وہ خاموش ہوئے تو ان کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے۔وہ ایک سچے مومن تھے جن کا دل خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے نام سے مچل جاتا ہے۔میری آنکھیں بھی ان کی بات سن کر نم ہو گئیں۔کاش ایسا ہو جائے میری موت بھی یہیں پہ ہو جائے اور میں گناہوں کے کرب سے آزاد ہو جائوں۔ہم مسلمان کس طرح بڑھ چڑھ کر گناہوں میں حصہ لیتے ہیں مگر جب ایک خاص مدت گزرتی ہے تو وہ گناہ درد بن کر سامنے آ جاتے ہیں۔خانہ کعبہ آ کر مجھے اپنے ماضی کے سب گناہ یاد آئے تھے اور اب وہ گناہ بھولائے بھی نہیں جا رہے تھے۔

’’خدا ہر مسلمان کو اپنے مقدس گھر میں مرنا نصیب کرے آمین‘‘ میں نے ان کے خاموش ہونے کے بعد دعا کی تو انہوں نے آمین کہا۔’’بیٹا اگر میں یہاں مر جائوں یا مسجد نبوی میں پیغمر خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ موت میرا نصیب ہو تو میرے بیٹے سے کہہ دینا میں نے اسے ہر غلطی کے لئے معاف کر دیا‘‘علم الدین صاحب نے نہ جانے کیا سوچ کر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا’’آپ ایسی بات کیوں کر رہے ہیں،خدا آپ کو لمبی عمر عطا کرے”میں نے ایسی باتوں سے انہیں روکنا چاہا مگر وہ مسکرائے‘‘ہم میں ہر ذی نفس موت کا ذائقہ چکھے گا تو اس سے بڑی موت اور کیا ہو گی کہ میں یہیں حرم پاک میں اس دار فانی سے کوچ کر جائوں یا مسجد نبوی کا سبز گنبد میری آنکھوں کے سامنے ہو اور اسے دیکھتا ہوا ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائوں۔کیا یہ سعادت نہیں ہے اور تم ہی تو دعا کر رہے ہو کہ خدا ہر مسلمان کو ایسی موت دے تو پھر میرے لئے یہ حق کیوں نہیں‘‘

’’کیونکہ آپ سے مجھے محبت ہو گئی ہے شاید اس لئے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘میں نے جواباً کہا’’فرزند،تو پھر یہ محبت خانہ کعبہ کے لئے بھی جو میرے دل میں ہے مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔میں اب اس سے دور نہیں ہو سکتا۔اگر یہاں نہ موت آئی تو ایک نہ ایک دن میں اپنے گھر میں بھی موت کا شکار ہو جائوں گا۔کیا یہ در میرے لئے بہترین نہیں ہے‘‘انہوں نے سنجیدگی سے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ بھی خاموش ہو گئے۔میں نے ایک نظر خانہ کعبہ کی طرف دیکھا۔اس وقت ظہر ڈھل رہی تھی اور عصر کا وقت شروع ہونے والا تھا۔آج لوگوں کا ہجوم معمول سے کہیں زیادہ تھا۔مگر یہ منظر سب سے مختلف تھا۔ہر انسان دوسرے سے بے غرض ہو کر خانہ کعبہ کو دیکھ کر آنسو بہا رہا تھا۔وہاں کون تھا جو مجھےجانتا تھا کہ میں اپنے علاقے کا ایک رئیس زادہ ہوں۔کون جانے علم الدین صاحب نے اپنے دل میں کتنے دکھ پال رکھے ہیں۔وہ خدا کا گھر تھا تو پھر شرم کیسی؟۔ہر کوئی ندامت کے آنسو بہا رہا تھا،کوئی اس بات پہ شکر ادا کر رہا تھا کہ اسے در پہ بلا لیا گیا۔تو کسی کی آنکھیں خانہ کعبہ کا منظر دیکھ کر چھلک رہیں تھیں۔کوئی غلافِ کعبہ ہاتھوں میں پکڑے گڑگڑا رہا تھا تو کوئی سجدے میں جھکا اپنے گناہوں پہ معافی مانگ رہا تھا۔

وہاں ہر شخص کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ایک نظر میں نے علم الدین صاحب کی طرف دیکھا جن کے گال ٹھوڑی تک بھیگ چکے تھے اور وہ خانہ کعبہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔محبت من کی پیاس نہیں بجھنے دیتی۔محبوب سامنے بھی ہو تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔میں خانہ کعبہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اس کی طرف قدم بڑھا دیئے۔خانہ کعبہ کو دیکھ کر ایسا پہلی بار ہوا کہ میرے قدم ڈگمگائے نہیں۔مجھے اپنے قدموں پہ کسی قسم کا بوجھ محسوس نہ ہوا۔نہ جانے مجھ پہ ایسا رقت کیسے طاری ہو گیا کہ مجھے وہاں کسی کی موجودگی کا احساس بھی نہ ہوا۔مجھے علم الدین صاحب یاد رہے تھے نہ ہی وہاں موجود ہزاروں زائرین کا ہجوم،مجھے لگا کہ وہاں صرف میں ہوں اور میرے سامنے حرم پاک۔میں خانہ کعبہ کی طرف دیکھتے ہوئے قدم بڑھاتا جا رہا تھا۔مجھے نہیں معلوم دھکم پیل میں،میں کتنے لوگوں سے ٹکرایا،مجھے کیسے خانہ کعبہ کے بالکل قریب پہنچنے کا رستہ ملا۔مجھ پہ جو رقت طاری ہو چکا تھا اگر پتھر بھی ٹکراتے تو مجھے چوٹ کا احساس نہ ہوتا۔خانہ کعبہ کے بالکل قریب پہنچ کر میں رک گیا۔ایک بار قریب سے خانہ کعبہ کو دیکھا تو میرا رونا ہچکیوں میں بدل گیا۔میں نے دونوں ہاتھوں سے غلاف کعبہ تھام کر گڑگڑانا شروع کر دیا۔اس وقت میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔میری زبان خاموش تھی مگر میرا دل اب گناہوں پہ ندامت لئے رو رہا تھا۔اس وقت پہلی بار مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں کیا کرتا رہا ہوں اور اس در پہ بلا کر مجھ پہ کتنا بڑا کرم ہوا۔

میں غلاف کعبہ پکڑے گڑگڑا رہا تھا جب پہلی بار میرے لب ہلے۔میرے دل سے نکلنے والی دعا زبان پہ آئی’’شاید میرے یہ آنسو،میری یہ ندامت،حرم پاک میں میرا یوں گڑگڑانا اور غلاف کعبہ پکڑ کر معافی مانگنا بھی تیری شکرگزاری کا حق ادا نہ کر سکیں مگر اپنی رحمت کے وسیع خزانے سے،اپنی رحمت کا وسیع سمندر اگر تو مجھے ایک قطرے سے بھی نواز دے تو شاید مجھ پہ جو گناہوں کا بوجھ ہے وہ ختم ہو جائے اور میں شکر گزاری کے آنسو بہا سکوں۔یا اللہ میں جب بھی تیرے حرم کی طرف دیکھتا ہوں میری آنکھیں ندامت سے چھلک پڑتی ہیں۔مجھے اس بوجھ سے نجات دے دے‘‘میں غلاف کعبہ پکڑے گڑ گڑا رہا تھا۔اچانک میری سانسیں اکھڑنے۔میں نے غلاف کعبہ مضبوطی سے تھام لیا۔اس وقت مجھے ہر چیز ارد گرد گھومتی ہوئی محسوس ہوئی میں کمر کے بل زمین پہ گر گیا۔چند لوگ میرے ارد گرد جمع ہوئے مگر میں بے ہوش ہو چکا تھا۔آخری بار میری نگاہوں کے سامنے خانہ کعبہ تھا۔
ازقلم/اویس

Comments (0)
Add Comment