ہار جیت اور دھاندلی کا واویلا

ہار جیت اور دھاندلی کا واویلا سیانے کہتے چلے آئے کہ پاکستان کی سیاست کو سمجھنا عام فہم بنی نوع انسان کے بس کی بات نہیں، برسوں گزرنے کے بعد آج ہمیں سمجھ آئی کہ یہ تو سیاست کےمیدان کے سورماؤں کے بس کی بھی بات نہیں کہ پاکستانی جمہوریت اور سیاست کی قدروں اور پیمانوں کی سوجھ بوجھ رکھیں، سیاست میں ہم نے کردار کشی سے لے کر غداری تک کے حالات و واقعات کی روداد سنی دیکھی اور کسی حد تک یقین بھی کرتے چلے گئے، کچھ سیانوں نے حالیہ بڑی سیاسی جماعت کے بارے میں کہا کہ سیاست میں غداری کے الزامات کا سلسلہ پاکستان کی حالیہ بڑی سیاسی جماعت کے قائدین نے شروع کیا مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے تو قائد اعظم کی ہمشیرہ پر بھی غداری کے الزامات لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی یعنی گھوم پھر کر بات وہیں آکر ٹھری کہ گنے چنے دائو ٔپیچ ہی پاکستانی سیاست کا شیوہ رہے بس عوام کی یاداشت کچھ کمزوری کا شاخسانہ رہی، موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ سیاسی بلوغت کے باعث اداروں میں تصادم ختم ہوچکا ہے۔

نیوٹرل کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں رہا، اقتدار میں ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں ضمنی انتخابات میں جیت نہیں پارہیں، گویا اب ملک میں دھاندلی کا خاتمہ ہوچکا، اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ہر چمکتی چیز سونا ہوتی ہے، انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کی جیت پاکستانی سیاسی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں، تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں بھی ہمیں ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابیاں نمایاں نظر آئیں، گزشتہ کئی ماہ سے نیوٹرل کی سیاست میں عمل دخل کا واویلا برپا رہا، بات تو یہاں تک بھی پہنچی کے عوام اور سیاستدانوں کی اکثریت نےکہا کہ یہ نیوٹرل کے ہاتھ میں ٹھہرا کے کون جیتے کون ہارے یا پھر حقیقی معنوں میں کون اقتدار پر براجمان ہو، یہ روش کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ ہر دور میں ہر سیاسی جماعت نے اداروں کی سرزنش کچھ اسی انداز میں کی،کسی دور میں نیوٹرلز کو خلائی مخلوق بھی کہا جاتا رہا۔

یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جمہوری قدروں کو ہمیشہ آمریت کے رنگ میں ڈھال کر اپنی بوٹی کے لئے پورا بکرا حلال کیا جاتا رہا،ضمنی انتخابات کے موجودہ نتائج پر نظر دوڑائیں تو تحریک انصاف واضح اکثریت کے ساتھ فتح یاب رہی مگر جہاں ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا وہاں دھاندلی نے جگہ لے لی جب کہ دوسری جانب صورتحال بالکل مختلف رہی نہ حکمران جماعتوں نے دھاندلی کی دلدل نچائی نہ ہی کسی اتحادی نے دوبارہ گنتی کی بات کی، حیران کن بات یہ رہی کہ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے شکست قبول کرتے ہوئے کہا کہ مخالف جماعت کے سربراہ کو ہرانا آسان نہیں، اب ان سب حالات وواقعات کی روشنی میں ہم کند ذہن تو یہ ہی سمجھیں گے کہ نہ ہی کہیں دھاندلی ہوتی ہے نہ ہی کہیں نیوٹرل یا خلائی مخلوق کا عمل دخل ہوتا ہے۔

ہمارے لئے تو سب مائع ہے کیونکہ جو ہمیں دکھایا جاتا ہے ہم اس پریقین کرلیتے ہیں، ہم اتنے باشعور بھی ہیں کہ جہاں اکثریت ہو وہیں کھڑے ہو کر نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں کہ جیسے ہجوم ہمیشہ وہیں لگتا ہے جہاں حق بات کی جارہی ہو، اب چاہے سیاسی معاملہ ہو یا مذہبی یا ہو معاملہ خریداری کا ہم جگہ وہی چنتے ہیں جہاں اکثریت ہو، خریداری ان سب کی عمدہ مثال ہے ہم کبھی اس دکان سے خریداری کو ترجیح ہی نہیں دیتے جہاں رش کم ہو بلکہ جہاں تل دھرنے کو جگہ نہ ہو وہاں ہم مہنگے داموں سستی اشیاء خریدنے سے بھی بعض نہیں آتے۔ کل ملا کر بات یہاں بھی چونا لگانے والی آگئی جسے حرف ِعام میں دھاندلی ہی کہنا بہتر رہے گا۔ اس وقت دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کے بغیر کسی فیصلہ سازی کو آگے بڑھا سکے، یورپ اس وقت زندہ مثال ہے جہاں نیٹوکو بھگوان کا درجہ دیا جارہا ہے کیونکہ فوجی اتحاد کا یہ ٹولہ اس وقت دنیا میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔

یورپ کے چند ممالک کے حالیہ انتخابات پر نظر پھیریں تو صورتحال یوں سامنے آرہی ہے کہ ہر ملک میں دائیں بازو کی سیاست سرایت کر رہی ہے ، کیا یہ دائیں بازو کی حکومتیں نیٹو یا مقامی افواج کے عمل دخل کے بغیر تشکیل دی جارہی ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں دھاندلی اس طرح سے نئی کی جاتی کے’’ٹھپے پہ ٹھپہ دے ٹھپا‘‘ یا بیلٹ باکس بدلنے والا کوئی معاملہ ہوتا ہے، یہاں دھاندلی کا دوسرا نام سازش ہوتا ہے جو ایک منظم منصوبے کے تحت عوامی ذہنوں کو بدل کر کیا جاتا ہے جسے ہم نے گزشتہ چند سال میں باخوبی دیکھا کہ بڑھتی ہوئی مہاجرت کو مذہبی منافرت میں بدل کر مقاصد پورے کئے گئے۔

وطنِ عزیز کی صورتحال ترقی یافتہ ممالک سے قدرِ مختلف ہے کیونکہ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام کو مانا جاتا ہےیعنی ہمیں بس ہجوم کی شکل میں ٹرک کی بتی کی پیچھے لگنا ہوتا ہے،اب چاہے ڈرائیور کوئی بھی ہو اور کہیں بھی لے جائے ۔ آج ہم اپنی سیاسی جماعت کی کامیابی پر لڈی ہے جمالو پا رہے ہیں، کل اگر ہماری جماعتیں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئیں تو پھر وہی دھاندلی کا منجن لے کر سڑکوں پر، یہ پبلک ہے یہ سب جانتی ہے‘ کے نعرے لگا کر احتجاج۔ قصہ مختصر یہ کہ ہار جیت اور دھاندلی ان تین اکائیوں نے کئی دھائیوں سے ہمیں بچہ جمورا بنا رکھا ہے اگر یہ معاملہ سیکڑوں سالوں تک چلتا رہا تو ہم اندھیرے میں ہی خاک چھانتے رہ جائیں گے۔

Comments (0)
Add Comment