جنگل کے بادشاہ سے تمام جانوروں نے شکایت کی کینگرو اچھلتے گودتے آتے جاتے ہمیں تنگ کرتا ہے۔بادشاہ سلامت نے حکم صادر فرمایا ایک کمرہ بناؤ اور اس میں قید کر دو حکم کی تعمیل کی گئی مگر کینگرو چھلانگ لگا کر باہر نکل آیا اور اپنی حرکتیں دوبارہ شروع کر دیںتمام جانوروں نے دوبارہ بادشاہ سلامت کے حضور پیش ہو کر پرانی شکایت دہرائی۔
بادشاہ نے کہا کمرے کی اونچائی جنگل کے سب سے اونچے درخت کے برابر کر دو۔حکم کی تعمیل ہوئی کینگرو دوسرے دن حسب معمول دوبارہ جنگل میں گھوم رہا تھا بادشاہ نے کینگرو طلب کر لیا اور سوال کیا تم نے اتنی اونچی چھلانگ کیسے لگائی۔ اسنے کہا میں نے چھلانگ نہیں لگائی آپکے کارندے ہر دفعہ کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ نے کمرہ اونچا کرنے کا کہا تھا۔ دروازہ بند کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری بھی یہ صورتحال ہے، اسی ہزار جانوروں کی قربانی دینے کے بعد بھی د نیا ہماری قربانی کو مانتی نہیں ہے۔
جنرل مشرف، جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ نے دہشتگردی کے خلاف مختلف ناموں سے آپریشن کیے مگر آج بھی ہمارے ملک کو دہشتگردی کے نام اور حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ درحقیقت دہشتگردی کی ابتداء شدت پسندی سے شروع ہوتی ہے۔مختلف رنگوں والی ٹوپیوں والے حضرات نے الگ الگ اپنا دین اسلام بنایا ہوا ہے۔ ہر کوئی اپنا الگ مسلک رکھتا ہے نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔
شدت پسندی کی ایک اور وجہ ملک میں میرٹ اور انصاف کا نہ ہونا۔ عوام میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور انتقامی جذبہ پروان چڑھنے لگتا ہے ۔ اسی کا فائدہ انکے اعلیٰ کار اٹھاتے ہیں۔ان لوگوں کے ماننے والوں کو جو حکم ملتا ہے اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں بغیر سوچے سمجھے۔عمران خان کے لانگ مارچ میں جو واقعہ پیش آیا ہے اسکو شدت پسندی کا رنگ دیا جا رہا ہے حکومت اور انتظامیہ نے جو ویڈیو جاری کی اسکو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مگر حقیقت اسکے برعکس ہے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ کارروائی کی گئی ہے ۔عمران خان کا لانگ مارچ جسے وہ جہاد کا نام دیتے ہیں، درحقیقت میرٹ اور ناانصافی کے خلاف جہاد ہے ۔ شدت پسندوں کو جہاد کا مطلب یہی سمجھایا گیا ہے جہاد کافروں کے خلاف ہوتا ہے ۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں سب سے بڑا جہاد اپنے نفس کے خلاف لڑنا ہے۔ معاشرے میں پھیلی برائی کو روکنا ہے، حق اور سچ کا ساتھ دینا ہے۔ حملہ آور کے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے اسکو حکومت اور اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ واقعہ کے پندرہ منٹ کے بعد اسکا انٹرویو منظر عام پر آگیا۔
جب ملک میں انصاف ناپید ہو جائے تو مجرموں کو جرم کرنے کی آزادی مل جاتی ہے ۔ عمران خان اسی نظام کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور عوام انکے ساتھ کھڑی ہے ۔ امپورٹڈ حکومت کے اراکین کل تک ملزموں کی فہرست میں شامل تھے آج قوم پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔عوام کا اعتماد عدلیہ اور اداروں پر سے اٹھنے لگا ہے ۔
اگر ان لوگوں نے فوری صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد نہیں کیا تو حالات سری لنکا سے بھی بدتر ہو جائیں گے۔ ایک طرف ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو دوسری طرف خانہ جنگی کے بادل سروں پر منڈلانے لگے ہیں۔ امپورٹڈ حکومت کو اپنی کرپشن چھپانےاور این آر او لینے کی فکر لاحق ہے ۔دانشور سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیا اس کھیل میں تمام ادارے برابر کے شریک ہیں۔