ہم لوگ نماز عشاء ادا کرنے کے لئے مسجد نبوی کے اندر چلے گئے۔مسجد نبوی اس وقت نمازیوں سے بھر چکی تھی اور ہمیں پچھلی صفوں پہ ہی جگہ مل سکی۔سنت ادا کرنے کے بعد ہم لوگوں نے باجماعت فرض ادا کئے اور پھر باقی کی نماز ادا کرنے لگے۔نمازی آہستہ آہستہ باہر نکلنے لگے اور آنکھوں کے سامنے کا منظر بدلنے لگا۔دل کو ایک پل بھی قرار نہیں آ رہا تھا۔نگاہوں نے جب سامنے مسجد نبوی کا ممبر دیکھا۔جس پہ پیارے پیغمر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔کیسا حسین منظر تھا جب مسجد نبوی کا ممبر چودہ سو سال پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہ کے سامنے اللہ کے احکامات بیان کرتے رہے ہیں۔آنکھیں آج بھی وہ منظر دیکھنے کو بے تاب تھیں۔ہم گناہگار مسلمانوں کا دل برائیوں سے سیاہ ہو کر بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے روشن ہے۔میں علم الدین صاحب کے ساتھ آگے بڑھا اور پھر ہم دونوں آگے بڑھتے چلے گئے۔یہاں تک کہ ہم لوگ ممبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔میں نے جھک کر ممبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیا تو آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے یہ ممبر بھی عظمتوں کا نشان بن گیا۔
چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی ممبرِ رسول کی تعظیم و تکریم ویسی ہی ہے۔ہم لوگ دیر تک وہیں کھڑے رہے۔جی چاہا کہ وقت ابھی رک جائے اور ہم لوگ ہمیشہ کے لئے ممبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑے رہے۔ممبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے بعد ہم لوگ سنہری جالیوں کی طرف بڑھے۔کتنے ہی مسلمان تھے جو ادب سے کھڑے سنہری جالیوں سے محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ان کی زبانوں پہ درود و سلام کا ورد تھا۔سنہری جالیوں کے قریب جا کر میں نے پہلی بار ان جالیوں کو چھوا۔آنکھوں سے بے ربط آنسو پہلے سے ہی جاری تھی مگر اب ضبط کا دامن چھوٹ گیا تو آنکھوں سے آنسوئوں کا ایک سیلاب نکلنے لگا۔کتنی عجیب بات تھی میں پچھلے آٹھ دن سے مسلسل آنسو بہا رہا تھا مگر اس سے میری آنکھیں خراب ہوئی نہ نظر پہ کچھ بھی اثر پڑا۔ہم سے کچھ ہی فاصلے پہ ایک نابینا شخص ہاتھ جوڑے گڑگڑا رہا تھا۔میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔وہ بصارت سے محروم تھا مگر اس کے دل کی بصیرت اب بھی باقی تھی۔اس وقت میں نے پہلی بار سوچا کہ مسلمانوں کی درِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت آنکھوں کی بصارت کی محتاج نہیں ہے۔
محبت تو من سے ہوتی ہے۔روح کا روح سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔وہ نابینا شخص بہتی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہا تھا”اے اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی آنکھوں کی روشنی نہیں چاہئے۔بس میرا دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے نور سے منور ہو جائے۔میں دل کو دنیاوی محبت کا قائل کر کے اندھا نہیں ہونا چاہتا’وہ بلک بلک کر کہہ رہا تھا۔جب میں بھی ایک دم سکتے میں آگیا۔مجھ سے بہتر تو وہ نابینا شخص ہے میں عمر بھر درِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور رہا ہوں۔میری آنکھیں اور دل دونوں بصارت سے محروم ہیں۔وہ آنکھوں کی روشنی سے کیا دیکھے جو سبز گنبد کو سامنے پا کر بھی نگاہیں بدل دے اور دنیا کے بارے سوچنے لگے۔میں نے امتی ہونے کا حق ادا نہیں کیا تھا۔مگر میرے لئے رحمت کے سب در کھول دیئے گئے۔خانہ کعبہ سے لے کر مسجد نبوی تک کے سفر میں مجھے کعبہ کا غلاف تھامنے کی سعادت نصیب ہوئی۔میں نے غار حرا کو نم آنکھوں سے دیکھا اور مجھے پہلی بار حجر اسود کا بوسہ لینے کی توفیق مل گئی۔میں نے مسجد قباء میں نماز عصر ادا کی اور اب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھنے کی سعادت مل گئی تھی۔اپنی زندگی کے پینتیس سال میں مجھے درود پڑھنا بھی یاد نہیں رہا تھا۔اس نابینا شخص کی آواز اس وقت دل پہ تیر کی طرح چبھی جب اس نے کہا کہ میرا دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے نور سے منور رہے۔میں دنیا کی محبت میں اندھا ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔مگر میں کہاں کھڑا تھا۔
وہ شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی درود و سلام نہ پڑھا ہو اور وہ در نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ کھڑا سنہری جالیوں کے بالکل پاس ہو تو وہ مجرم سے کم نہیں ہو سکتا۔جس نے پوری عمر مسلمان ہونے کا حق ہی ادا نہیں کیا۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم گناہگار امتوں کے لئے ہی تو بخشش مانگتے ہیں۔آنسو سبب ہوتے ہیں۔ندامت کے اور محبت کے اظہار کے۔میری آنکھوں صرف آنسو تھے گناہوں پہ ندامت کے آنسو۔میری زبان پہ درود و سلام جاری تھا جب علم الدین صاحب نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا”فرزند،میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اس طرح سنہری جالیوں کے سامنے کھڑا ہو کر اتنے قریب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ درود بھیج سکوں گا۔میری چشم نم کو توقع نہیں تھی فرزند،میں جب ستر سال کا ہوا تو مجھے لگا اب کسی بھی وقت میں مر جائوں گا اور میری زندگی سبز گنبد کی زیارت کے بغیر ہی ختم ہو جائے گی۔مگر فرزند تم میرے لئے اس پہنچ کا وسیلہ بنے ہو۔تم بہت انمول شخص ہو۔تم محبت کی وجہ سے ہی اس در پہ بلائے گئے ہو”علم الدین صاحب بولتے جا رہے تھے۔وہ پتا نہیں کیا کیا کہہ رہے تھے جبکہ مجھے اس بلاوے کا سبب صرف یہی سمجھ آیا کہ ایک گناہگار شخص پہ رحمت کی نظر کی گئی۔جی چاہ رہا تھا کہ میں سنہری جالیوں سے عمر بھر کے لئے جدا نہ ہو سکوں۔میرے دل سے یہی دعا نکلی کہ ہجر کی وہ رات کبھی نہ آئے کہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے دور ہو سکوں۔آنکھیں نم تھیں اور زبان سے درود و سلام کا ورد جاری تھا۔اچانک علم الدین صاحب نے ایک دم ہچکولا کھایا اور وہ گرنے لگے۔میں نے ان کا ہاتھ تھاما تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔آخری لمحے وہ سنہری جالیوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔وہ سنہری جالیوں کو چھونا چاہتے تھے مگر اس وقت ہوش ہو حواس کھو چکے تھے۔میں نے نیچے بیٹھ کر ان کا سر اپنی گود میں رکھ لیا مگر وہ اس وقت تک بے ہوش ہو چکے تھے۔ان کے لب ہل رہے تھے کہ فراق کا وقت ختم ہو گیا۔ہجر کے اندھیرے اب چھٹ گئے۔
کچھ زائرین کی مدد سے میں علم الدین صاحب کو مسجد نبوی شریف کے صحن میں لے آیا۔وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔انہیں فورا فرسٹ ایڈ دی گئی۔تو ان کی کچھ حالت سنبھلی۔ان کا بی پی مسلسل لو چل رہا تھا۔میں ان کا سر اپنی گود میں رکھے ہوئے تھا۔ایک آدھ بار میں نے کوشش کی کہ میں انہیں اٹھا کر کیمپ میں لے جائوں مگر مجھ سے ایسا نہ ہو سکا۔وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بھی سبز گنبد کی طرف دیکھ رہے تھے۔ان کی نکھوں سے آنسو نکلنے کم ہی نہیں ہو رہے تھے۔دوا کے اثر سے انہیں کچھ ہوش آیا تو ان کی لب ہلے
"فرزند،میں ایک عرصے تک فراق میں جیا ہوں۔مجھے ہجر کی راتوں نے تڑپایا ہے مگر فرزند اس حالت میں بھی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے جانا نہیں چاہتا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ آنے کے لئے میں نے ستر سال تک دوری برداشت کی ہے۔مجھ میں اب یہ در چھوڑنے کی سکت نہیں ہے فرزند،تم میرے لئے دعا کرنا،میں یہیں کا ہو کر رہ جائوں۔مجھے یہیں پہ موت آ جائے۔ہو سکتا ہے میرا خمیر مدینہ کی مٹی کا ہو اور مجھے یہی خاک ہونے کی جگہ مل جائے”بولتے ہوئے وہ کراہ رہے تھے۔ان میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔وہ مزید بولنا چاہتے تھے مگر شاید تھک چکے تھے اس لئے چند لمحوں کے لئے رک گئے۔رات گہری ہو گئی اور ہم لوگ ابھی تک مسجد نبوی میں ہی تھے جب علم الدین صاحب نے اپنا سر میری گود سے اٹھایا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گئے۔میں نے انہیں پیچھے سے ٹیک دینا چاہی مگر انہوں نے مجھے منع کر دیا اور بولے”فرزند،میں سوچتا ہوں کہ مسجد نبوی شریف سے واپس جانے کے بعد لوگ کیسے اس کے فراق میں زندگی جی لیتے ہیں۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے دوری مجھ سے برداشت نہیں ہو سکی۔میں جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑا تھا تو جب یہ بات ذہن میں آئی کہ مجھے پھر سے فراق کا کرب سہنا ہے تو مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکا میرے دل کی دھڑکن جیسے رک سی گئی اور میں گر گیا۔کیا تمہاری بھی حالت ایسی ہی ہے”انہوں نے میری طرف تھکی تھکی نگاہوں سے دیکھا
"بزرگوار،میں نے یہاں آ کر ہی تو خود کو پہچانا ہے کہ میں خاکی انسان کس قدر خود کے ساتھ سفاکی سے پیش آ رہا تھا۔یہاں آ کر ہی مجھے ادراک ہوا غلاظت کس حد تک میرے من میں بھر چکی ہے۔میں واپسی کے سفر سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں پھر سے میں اپنے ماضی میں کھو کر سفاک نہ ہو جائوں”ان کی بات کے جواب میں،میں نے کہا
‘فرزند،فراق کا یہ زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔میں نے عمر بھر ماں باپ کی جدائی برداشت کی۔میرا بھائی مجھ سے کئی سال تک لا تعلق رہا۔میں نے اس لا تعلقی کا بھی کرب سہا۔پھر اپنے بیٹے کی جدائی اور شریک حیات کی رحلت نے مجھے توڑ دیا۔مجھے جو درد مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے جدائی کا ہے اس کے سامنے دنیا کے درد کچھ بھی نہیں۔تم دعا کرنا میں اب کبھی اس در سے جدا نہ ہو سکوں”وہ رونے لگے۔ان کے من میں ان دیکھا درد چھپا تھا۔وہ آنسو بہا رہے تھے جبکہ میں انہیں چپ کروانے کی کوشش کرنے لگا۔پھر انہیں ساتھ لے کر کیمپ میں چلا گیا۔میں نے انہیں دوا دے کر ان پہ چادر ڈال دی تو وہ کچھ دیر کے لئے سکون کی نیند سو گئے تو مجھے بھی کچھ سکون ملا مگر ان کی حالت بہتر ہونے کی بجائے بگڑ گئی۔آدھی رات کے وقت جب میں نے انہیں پیشانی سے چھوا تو وہ بخار میں دھک رہے تھے۔ان کی حالت دیکھ کر میں گھبرا سا گیا۔میں نے فورا کیمپ میں زائرین کے لئے موجود ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے آ کر ضروری چیک اپ کیا اور ان کے لئے میڈیسن دی۔تقریبا ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد ان کا بخار کم ہوا تو انہوں نے آنکھ کھولی۔میں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کی حالت سنبھلی۔آنکھ کھلتے ہی انہوں نے مجھے مخاطب کیا”فرزند۔۔۔کیا۔۔وقت۔۔۔ہوا۔۔ہے”وہ بولے
"اس وقت اڑھائی بج رہے ہیں”میں نے جواب دیا
"یہ تہجد کا وقت ہے فرزند،مجھے مسجد نبوی میں لے چلو”علم الدین صاحب نقاہت سے بولے”مگر آپ کی حالت بہت خراب ہے بزرگوار”میں نے انہیں روکنا چاہا تو وہ میری طرف دیکھ کر ہلکے سے مسکرائے”کیا میں تم پہ بوجھ ہوں فرزند”وہ بولے”نہیں نہیں،ایسا نہیں ہے۔اگر بوجھ ہوتے تو میں آپ کی تیمارداری کیوں کرتا”
"فرزند،میرا دل بے چین ہے مجھے مسجد نبوی لے چلو۔مجھے تہجد ادا کرنی ہے”انہوں نے مجھ سے اصرار کیا تو میں نے انہیں اٹھا کر بیٹھا دیا اور پھر انہیں ساتھ لے کر مسجد نبوی شریف میں چلا آیا جہاں انہوں نے وضو کے بعد میرے ساتھ ہی تہجد کی نماز ادا کی۔ہم لوگ مسجد نبوی کی پہلی صف میں بیٹھے تھے۔جس کے بائیں طرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک ہے۔ہم لوگ بائیں طرف بیٹھے درود و سلام پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔علم الدین صاحب کی حالت مزید بہتر ہو گئی تو وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئی۔
"فرزند،میری بات سنو فرزند”علم الدین صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"مجھے لگتا ہے کہ یہ فراق ختم ہونے کو ہے فرزند،یہ ہجر کے بادل چھٹ رہے ہیں”وہ بولے مگر نم آنکھوں کے ساتھ تو میری آنکھیں بھی بھر گئیں۔وہ مزید کچھ بھی نہ بولے اور پھر سے سنہری جالیوں کہ طرف دیکھنے لگے۔نہ جانے ان کے ذہن میں ایسا کیا آیا کہ وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ان میں بجلی سی طاقت آ گئی تھی۔میں بھی ان کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔وہ فجر کی اذان ہونے تک کھڑے رہے اور ان کی زبان سے درود و سلام کا ورد جاری رہا۔فجر کی اذان شروع ہوئی تو انہوں نے بند آنکھیں کھولیں اور میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ہم لوگ مسجد نبوی کی سب سے پہلی صف میں بیٹھے تھے جو اب بھر چکی تھی۔اذان مکمل ہوئی تو ہم نے سنت ادا کی۔علم الدین صاحب سنت ادا کرنے کے بعد پھر سے اسی طرح کھڑے ہو گئے۔اس وقت ان کی حالت ایسی تھی جیسے انہیں کبھی کوئی بیماری لاحق ہی نہ ہوئی ہو۔تھوڑی دیر میں اقامت ہوئی اور پھر سب نمازی فرض نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔مجھے نہیں معلوم نماز مکمل ہونے میں کتنا وقت لگا مگر میرے ساتھ کھڑے علم الدین صاحب دوسری رکعت کے پہلے سجدے سے سر نہ اٹھا سکے۔وہ سر سجدے میں ہی رکھے ہوئے تھے جب امام صاحب نے نماز مکمل کرنے کے بعد سلام پھیرا اور ساتھ سب مقتدیوں نے بھی سلام پھیر دیا۔میں نے ہاتھ بڑھا کر علم الدین صاحب کو ہلایا تو ان کا جسم جیسے بے جان ہو چکا تھا۔میں نے انہیں تھوڑا سا ہلایا تو وہ ایک جانب صف پہ ہی گر گئے۔میں نے ان کی نبض چیک کی اور جسم کو ٹٹولا مگر ان کی نبض رک چکی اور جسم برف کی طرح ٹھنڈا ہو چکا تھا۔میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔
"فراق کا وقت ختم ہوا،ہجر کے بادل اب چھٹ چکے”ان کے الفاظ میرے کانوں میں گونجے۔میں نے دو تین نمازیوں کے ساتھ علم الدین صاحب کو سیدھا لیٹایا۔ان میں زندگی کی اب کوئی رمق باقی نہ رہی تھی۔ان کے لئے ہجر کے بادل چھٹ چکے اور وہ بے جان مسجد نبوی کی پہلی صف پہ پڑے تھے۔وہ انتقال تو کر چکے تھے مگر ان کا چہرہ اب بھی سنہری جالیوں کی طرف تھا۔
ازقلم/اویس