30 سالہ چوری چکاری کا الزام خان کی حکومت پر بڑی فراغدلی سے ڈال کر کہتے ہیں، آج ملک کو اس حال میں تحریک انصاف نے پہنچایا ہے، ملک میں افراط ذر کی شرح 16 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے اسٹیٹ بینک موجودہ شرح سود کو 15 فیصد سے زیادہ کرنے پر غور کر رہا ہے اگر افراط زر کو مجموعی قومی پیداوار سے منفی کریں تو ملک درحقیقت دیوالیہ ہو چکا ہے، امپورٹڈ حکومت نے جنیوا میں اجلاس بلا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے امدادی رقوم کے ملتے ہی حالات بہتری کی سمت چل پڑیں گے۔
امداد دینے والے ممالک کو جب اس چیز کا علم ہوا امدادی رقوم سیلاب زدگان کی بحالی کی بجائے حکومت اپنے اخراجات کو پورے کرنے میں لگائے گی تو انہوں نے رقوم کی شرط آئی ایم ایف سے مشروط کر دی ،حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے بینکوں میں موجود تمام رقوم حکومت پاکستان کی ہے ، اس بیان سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ، حکومت کی نظر اب عوام کے پیسوں پر ہے ،چھوٹے سرمایہ داروں کی کثیر تعداد نے بینکوں سے رقوم نکلوانی شروع کر دی ہے، ایک طرف افراط زر اور دوسری طرف بینکوں میں ترسیل زر کی کمی نے حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اضافی کرنسی چھاپے۔
اس صورتحال میں افراط زر میں مزید اضافہ متوقع ہے ،سرمایہ داروں نے بینکوں سے پیسہ نکالنے کے بعد اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنا شروع کر دیا ہے ۔حکومت نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کو انٹر بینک ریٹ پر مستحکم رکھنے کی کوشش کی ہوئی ہے ۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 30 سے 35 روپے مہنگا مل رہا ہے ، اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگوں نے سونا خریدنا شروع کر دیا ہے ، ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے چند ماہ میں ملک میں تیرا ٹن سونا خریدا گیا ہے۔ اس وقت لوگوں کی نظر میں سب سے محفوظ سرمایہ کاری ہے، ریئل اسٹیٹ کا کاروبار تنزلی کا شکار ہے۔
پراپرٹی کی قیمتیں بڑی تیزی سے گر رہی ہیں۔ڈالر کی مسلسل کمی نے صنعت کاروں کو مجبور کر دیا ہے کہ اپنی فیکٹریوں کو بند کر دیں۔حکومت اس وقت پیسہ حاصل کرنے کے لیے ملکی اثاثوں کو اور انکے شیئرز کو فروخت کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے رابطہ کیا ہے ، انہوں نے بھی صاف لفظوں میں یہی پیغام دیا ہے ، جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا کم از کم پانچ سالوں کے لیے ہم سرمایہ کاری نہیں کریں گے،حکومت اور انکے اتحادی اپنی وزارتوں کو صرف طول دینا چاہتے ہیں تا کہ اقتدار کے مزے سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔
اگر یہی حالات رہے تو حکومت خود ہی ملک میں پہیہ جام کر دے گی۔ وزارت پٹرولیم کی ارسال کردہ سمری میں کہا گیا ہے صرف دو ہفتوں کے لیے پٹرولیم کی مصنوعات باقی رہ گئی ہیں، اگر فوری فیصلہ نہیں کیا گیا تو ان مصنوعات کو درآمد کرنے پرآٹھ ہفتے لگ سکتے ہیں ۔حکومت کی گرفت کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے اور اٹھارویں ترمیم نے جہاں صوبوں کو خودمختاری دی ہے وہیں وفاق کی گرفت کو کمزور کر دیا ہے ۔ حکومت خورو نوش کی اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔
اب جب کہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل ہونے جارہی ہیں ، مزید معاشی بحران جنم لیں گے۔ملک اس وقت تین طرح کی جنگوں میں مصروف ہے ، معاشی ، سیاسی اور پچھتر سالوں مسلط غیر جمہوری نظام۔درحقیقت تحریک انصاف اسی نظام کے خلاف حقیقی آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے ، جمہور کی رائے کو اہمیت دی جائے جو بھی حکومت اقتدار میں آئے وہ بااختیار ہو۔حکومت حقیقی معنوں میں آزاد ہو گی تو عدلیہ بھی آزاد فیصلے کرے گی۔ موجودہ بوسیدہ نظام نے ملک کو آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے