مجلس ترقی ادب،بزم اقبال پنجاب کے زیراہتمام مصنفہ نبراس سہیل کی کتاب "پرواز” کی تقریب پذیرائی

تقریب کی صدارت منصور آفاق صدر مجلس ترقی ادب لاہور نے کی،تقریب کا اہتمام فرحت عباس شاہ نے کیا

"پرواز” کے بارے مقالے پڑھے اوراس میں شائع مضامین کے بارے تبصرے کئے گئے

نظامت کے فرائض محمد ظہیر بدر نے بطریق احسن ادا کیے

دبئی (طاہر منیر طاہر) گزشتہ دنوں مجلس ترقی ادب، بزم اقبال پنجاب کے زیر اہتمام مصنفہ نبراس سہیل کی کتاب "پرواز” کی تقریب پذیرائی ہوئی، تقریب کا اہتمام فرحت عباس شاہ نے کیا اور صدارت منصور آفاق صدر مجلس ترقی ادب لاہور نے کی۔

تقریب ہذا میں ڈاکٹر غافر شہزاد، ناصر نقوی، ندیم چوہدری، نعمان مسعود، ظفر عمران، رائے عرفان، ڈاکٹر سعدیہ بشیر، رقیہ اکبر، کنول بہزاد، احتشام حسن، عدنان بھٹہ، شفیق احمد نے شرکت کی اور مصنفہ نبراس سہیل کی کتاب "پرواز” کے بارے مقالے پڑھے اوراس میں شائع مضامین کے بارے تبصرے کئے۔

چونکہ یہ تقریب پذیرائی تھے اس لئے تنقیدی جائزہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی تنقیدی مقالے پڑھے گئے، اس مقصد کے لئے ایک اور نشست کا اہتمام کیا جائے گا،کتاب "پرواز” کی تقریب پذیرائی میں لاہور کی علمی اورادبی شخصیات نے شرکت کی۔

کتاب کے بارے ویڈیو تبصرہ معروف صحافی حسن نثار نے بھی کیا، دیگر تبصروں کے علاوہ کراچی کی محترمہ نشاط یاسمین خان نے بھی ایک خوبصورت تبصرہ کیا ہے جو درج ذیل ہے، اولگا تکار چک کا تعلق پولینڈ سے ہے،٢٠١٥ میں انہیں بکر پرائز سے نوازا گیا مگر اس سے پہلے وہ اپنے ملک کی ہردل عزیز مصنفہ بن چکیں تھیں۔

نبراس سہیل نے ان کے معروف ناول "فلائٹس ” کا ترجمہ اردو میں کیا ہے مگر اس ناول کے ترجمے سے پہلے وہ ان کے کئی افسانوں کے ترجمے کر چکیں تھیں۔ نبراس سہیل کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے اور آجکل وہ فیڈریل بورڈ سے منسلک ہیں اور دبئی میں ایک ادارے کی پرنسپل کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

اس ناول کے ترجمے کے دوران انکا دو سال تک مصنفہ سے مکالمہ جاری رہا۔ ایک انٹرویو کے دوران اولگا تکارچک نے کہا تھا کہ وہ ترجمہ نگار کو بھی اپنے برابر کا تخلیق کار سمجھتی ہیں کیونکہ کہ تخلیق کار کا کام ترجمہ کار کے ذریعے ہی دور دراز کا سفر کرتا ہے۔اس کا کام بھی تخلیق کار جتنا اہم ہے کیونکہ وہ اپنی زبان میں ایک ادب پارے کی دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔

نبراس سہیل اس فن پارے کے مطابق کہتی ہیں کہ اس کتاب کے ہر صفحے نےحیرتوں کا ایک نیا جہاں کھول کر سامنے رکھ دیا۔اور ایک جگہ تر جمہ کار لکھتی ہیں کہ-"جہاں نوردی کی شوقین مصنفہ قدیم فلسفے کو اس کتاب کی بنیاد بتاتی ہیں جو ایک مقام پر ٹھہر گیا وہ الجھ گیا لہٰذا سفر میں رہنا انسان کو بیشتر مسائل سے بچا لیتا ہے اور آدمی ترقی کی طرف اڑا ن بھر تا ہے۔ ” پرواز کی کہانی بھی ایک پیدل سفر سے شروع ہوتی ہے اور مسلسل سفر کرتی ہوئی آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔

چونکہ مصنفہ کا تعلق پولینڈ سے ہے اس لیےابتدائی مناظر میں پولینڈ کے دریا، پہاڑاور بودوباش کےمتعلق ہیں۔ یہاں اس کی سرزمین اور خاندان کا ذکر بھی موجود ہے جو پرواز کرتے ہوئے نامعلوم مقامات کا سفر کرتے ہیں۔ کتاب میں کئی ابواب علم اعضاء اور ان کو محفوظ کرنے کے متعلق بھی ہیں اور وہ قاری جس کا سائینس سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو اس کے ذہن کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مصنفہ کی تخیل کی پرواز بہت تیز ہے اور ترجمہ کار کو مصنفہ کے ساتھ اڑان بھرنی پڑتی ہے جو اس تر جمے کی کامیابی کا ثبوت ہے۔

مصنفہ ایک جگہ لکھتی ہیں۔
” میں نے وہ جنیاتی مادہ وراثت میں لیا ہی نہیں کہ جہاں رہا جائے وہیں اپنی جڑیں بھی اتار لیں جائیں،” ترجمہ کار نبراس سہیل لکھتی ہیں کہ اس کتاب کا ترجمہ میرے لیے کسی ریسرچ سے کم نہ تھا۔مصنفہ اور ترجمہ کار کے درمیان اس مکالمے کے بعد میرے لیے چونکا دینے والے اس کے کتاب کے عنوان اور موضوعات تھے جیسے ذہنی عارضہ ، تجسس انگیز الماریاں، بزدلوں کی ریل گاڑیاں ، لفنگوں کی پرواز، مینڈک اور پرندہ ، غلاف پوش بھگوڑی کیا بکتی ہے ،چوپن کا دل، ناوں کے سوداگر…..ہر نام چونکا دینے والا اور ہر باب حیرت کدہ اور طلسم کدہ جس میں داخل ہونے کوایک راستہ اور نکلنے کا راستہ کوئی نہیں۔ ہر موضوع ہشت پہلو اور جہتیں لیے ہوئے تھا جو ایسے مقامات پر لے جاتا ہے جہاں انسانی ذہن کی پرواز آسانی سے پہنچ نہیں سکتی۔ پہلے سو صفحات پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ تر جمہ قابل رشک حد تک تخلیق کے قریب ہے اور ترجمہ کار نے اصل مسودے سے مکمل انصاف کیا ہے اس لیے مکمل ترجمہ پڑھنے میں آسانی ہوئی اور اپنے پسندیدہ عنوان کا انتخاب کیا- "بول کہ لب آزاد ہیں تیرے”

اپنے اندر باہر خود سے دوسروں سے بات کریں ہر صورتحال کو بیان کریں ہر کیفیت کو نام دیں لفظ تلاش کریں ان کو استمال کریں ایسے جادوئی جوتے کی طرح جس نے پا ئوں میں آتے ہی عام سی سین ڈریلا کو شہزادی بنا دیا تھا ۔ یہ ایک طویل مضمون ہونے کے باوجود نہایت دلچسپ ہے۔ اس کتاب کے کئی رنگ ہیں کئی جہتیں ہیں جو یہ اپنے اندر سموئے ہوئے پرواز کررہی ہے، اپنے اندر کئی جہاں آباد کئے ہوئے ہیں، یہاں کئی ایک کہانیاں بھی ہیں۔ اگر آپ کچھ نیا اور کچھ اچھا پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کو ضرور پڑھیں میرے نزدیک یہ تخیل کی پرواز کی کتاب ہے۔

بزم اقبال پنجابپروازکتابمجلس ترقی ادبنبراس سہیل
Comments (0)
Add Comment