محبت وہ پاک جذبہ ہے جو انسان کی روح میں ہوتا ہے اور ایسا ہتھیار ہے جو پتھر سے پتھر دل انسان کو بھی موم بنا دیتا ہے ہمارے سننے میں محبت کی مختلف داستانیں آئیں ہیر رانجھا ، سسی پنوں سوہنی مہیوال لیلی مجنوں وغیرہ یہ محبتیں روح سے کی گئیں جسم سے نہیں یہ ہی وجہ ہے کہ یہ محبت کی داستانیں آج بھی زندہ ہیں یوں تو ہمارے معاشرے میں بے انتہا تہوار ہیں جن کو ہم مناتے ہیں لیکن آجکل ایک تہوار جوکہ مسلم معاشرے میں بے انتہا مقبول ہورہا ہے اسے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کہتے ہیں محبت کے نام پر لڑکے اور لڑکوں کا آزادانہ میل ملاپ معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہا ہے مغرب کی نام کی محبت ہمارے معاشرے میں ناسور کی شکل اختیار کر رہی ہے اور ہم حقیقت سے نظریں چرائے تماشائی بنے معاشرے کی بربادی کا تماشہ دےکھ رہے ہیں آیئے دیکھتے ہیں کہ آخر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ ہے کیا اور یہ کیوں منایا جاتا ہے اگر ہم اس تہوار کے بارے میں دیکھیں تو یہ کرسمس کے بعد دنیا میں منایا جانے والا دوسرا بڑا تہوار ہے اگر اس دن منانے کا پس منظر دیکھیں تو برسوں پہلے رومن امپائر کےدور میں بادشاہ کلوڑیس فانی ملک میں ایک بڑی آرمی تشکیل دینا چاہتا تھا لیکن نوجوان اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے جسکی وجہ سے حکومت بڑی پریشان تھی۔
نوجوانوں کے اس رویہ پر بادشاہ کلوڑیس بڑا ناراض ہوا اور اس نے نوجوانوں کی شادی پر پابندی لگادی اس زمانے میں روم میں ایک پادری رہا کرتا تھا جسکا نام ’’ویلنٹائن‘‘ تھا اس نے بادشاہ کے احکامات کی خلاف ورزی شروع کردی اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی خفیہ شادی کرانا شروع کردی اور یہ بھی سننے میںآیا کہ پادری ’’ویلنٹائن‘‘ نوجوانوں کو شادی کے بغیر لڑکیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کی ترغیب دیتا تھا جب بادشاہ کلوڑیس کو اس پادری کے بارے میں پتہ چلا تو اس کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا لیکن کیونکہ یہ پادری ’’ویلنٹائن‘‘ اتنا مشہور ہوگیا تھا اسلئے نوجوان لڑکے لڑکیاں اسکے قید خانے کے باہر پھول اور کارڈز رکھ دیا کرتے تھے آخر بادشاہ کے حکم پر پادری ’’ویلنٹائن‘‘ کو 14 فروری کو پھانسی دے دی گئی اور دنیا کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس طرح اس کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ مناتے ہیں اور دنیا کے نوجوان لڑکے لڑکیاں پھول اور تحفے ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں ہماری پاکستانی قوم دنیا کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے اس ڈگر پر چل پڑی ہے اور تھوڑی دیر کے لئے ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ نہیں سوچتے اس تہوار کی ہمارے معاشرے اور مذہب میں کوئی گنجائش نہیں اور ہم اسلام کی اخلاقی اقدار کا مذاق اور دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
بس مغرب کی دنیا اس تہوار کو منا رہی ہے ہم بھی منانا شروع ہوگئے اصل میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی تاریخ عیسائیت اور یہودیت سے ملتی ہے یہ ایک بڑا کمرشل رسومات کا جال ہے جس میں ہماری قوم کو نہیں پھنسنا چاہئے ہم گذشتہ قوموں کی بربادی بھول گئے ہیں کہ جنہوں نے اﷲ پاک کی آیتوں کا انکار کیا تو اﷲ نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور ہمارے لے عبرت کا نشان بنا دیا لیکن ہم پھر بھی اس سے سبق نہیں سیکھ رہے دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر ہم اپنے اصل مقصد سے ہٹتے جا رہے ہیں نام نہاد آزادی کے نام پر اپنے معاشرے میں ویلنٹائن کی صورت میں بے حیاائی اور فحاشی کو عام کر رہے ہیں اور عذابِ الہی کو دعوت دے رہے ہیں پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں یہ تہوار قومی سطح پر منایا جاتا ہے ٹی وی چینلز اور ریڈیو سٹیشنز پر باقاعدہ ٹرانسمیشنز دکھائی جاتی ہیں گھروں میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اسکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو پھول اور تحائف پیش کرتے ہیں اس دن ملک کے تمام ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بھرمار ہوتی ہے جو اپنے گھر والوں سے چھپ کر یہ دن منانے آئے ہوتے ہیں اور والدین ان تمام باتوں سے قطع تعلق یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے ہونہار بچے علم حاصل کرنے گئے ہیں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ا س تہوار کو منانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جب ہم کسی لڑکی کو ویلنٹائن وِش کرتے ہیں تو کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے گھر میں بھی بہنیں اور بیٹیاں ہیں کیا ہم برداشت کر لیں گے کہ ہماری بہن سے کوئی محبت کا اظہار کرے ہرگز نہیں تو پھر دوسروں کی بہن بیٹیاں بھی تو کسی کی عزت ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ہم کیسے اﷲ پاک کے احکامات کو جھٹلا سکتے ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری نوجوان نسل نے محبت اور تفریح کے نام قومی وقار اور معیشت کو بھی غیروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے اور ہم اپنی مذہبی اقدار کو دوسرے مذاہب سے غالباً کم تر سمجھنے لگے ہیں گویا ہم محبت کو بھی سمیٹ کر صرف ایک دن تک محدود کر دیا ہے وہ لوگ جو اس دن کاصیحح تحفظ بھی نہیں کر پاتے اور اس کی بیک گراؤنڈ سے ہی ناآشنا ہیں کھربوں ڈالر کی مقروض قوم کے افراد اسلامی شعائر کو پامال کرتے ہوئے مغربی اقوام کے تہواروں پر اربوں روپیہ ہوا میں اڑا دیتے ہیں ہم نے سمجھ لیا ہے کہ شاہد یہ تہوار نہ منایا تو ہم خدانخواستہ ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔
مغربی تہذیب کے دلدادا نوجوان اس دن پھولوں کے گلد ستے دینے میں مسرت محسوس کرتے ہیں مگر اپنی روایات کو یکسر بھول جاتے ہیں ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہم نے محبتیں بانٹنے کیلئے بھی اسی دن کو منانا اپنا فرض سمجھ لیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغربی اقوام کے تہواروں پر بھاری رقوم ضائع کرنے سے گریز کریں اظہار محبت کو ایک دن تک اور نہ ہی اسے عاشق و معشوق تک محدود نہیں کیا جا سکتا ہمیں چاہئے کہ ہم جہاں اپنے چاہنے والوں کو اپنی محبت کا یقین دلائیں وہاں ہم آپس کی نفرتوں اور کدورتوں کو بھلا کر ایک دوسرے سے محبت و اخوت کو فروغ دیں تاکہ ہماری اس دھرتی پر امن کے پھول کھلیں اور یہ ملک ترقی و خوشحالی کی منزل کو پا سکے ہمارا مذہب تو خود امن و محبت کا پیغام دیتا ہے جسکا اظہار ہماری مذہبی و معاشرتی ثقافت و روایات سے ہوتا رہتا ہے جن میں ماہ رمضان عیدین اور دیگر کئی ایسے مواقع ہیں جن میں باہمی و اجتمائی محبت صاف جھلکتی ہے جو ہماری مذہبی و معاشرتی روایات کی بہترین مثال ہیں اگر ہم کسی کو تحفہ دینا چاہتے ہیں پھول دینا چاہتے ہیں تو اس کے لئے کوئی تاریخ یا دن مقرر نہیں ہے بڑی طاقتوں اور مغرب کی یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم قوم کو اخلاقی طور پر پست کردیں یہ قوم خود بخود تباہ ہوجائے اس لئے وہ مغربی لباس جن میں جسم جھلکے اور اخلاق سے گری ہوئی فلمیں بناتے ہیں تاکہ مسلم معاشرے کو گزند پہنچا سکیں ہم نے اسلامی اقدار ، اخلاقیات ، ثقافت اور معاشرے کو بلند رکھنا ہے جس طرح ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں اسلام کی صحیح روح کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اسلام کے سچے اصولوں پر چلیں تو اس دنیا میں گناہوں سے بچنے کے بعد قیامت کے دن خدا اور اس کے رسولﷺ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوں گے۔