حقائق کیسے مسخ ہوتے ہیں۔

شاہ جی سے جب کبھی بھی معاشرے کی گرتی ہوئی اقدار اور اخلاقی پستی کے بارے بات ہوئی تو انہوں نے ہمیشہ ایک بات کہی کہ ہمارے ہاں حلال اور حرام، سچ اور جھوٹ، غلط اور صحیح کی پہچان ختم ہو گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات سے بالکل واضع ہو جاتا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے جس زور و شور اور جلد بازی سے حکومت کے آخری دنوں میں کابینہ سے درجن بھر بل منظور کروائے اور خاص طور پر آرمی ایکٹ ترمیمی بل، اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ۲۰۲۳ جو منظوری کے لئے پاکستان آرمی کے سپریم کمانڈر اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب کو دستخط کے لئے بھیجا گیا، جو انہوں نے بغیر دستخط کئے واپس بھیج دیے کہ اس بل میں کافی شکوک و شبہات ہیں لیکن بل بغیر دستخط کیے واپس کرنے کے باوجود منظور بھی ہو گیا اور خصوصی عدالت بھی بن گئی۔ یہ معاملہ اُس وقت کھلا جب صدر پاکستان کو ٹویٹ کر کے بتانا پڑا کہ انہوں نے کسی بل پر دستخط نہیں کئے اور اُن کے ماتحت عملے نے اس میں کوتاہی کی ہے جو سراسر بددیانتی اور پروفیشنل ازم کے خلاف ہے۔ یہ ایک خبر مختلف حوالوں سے نشر کی گئی کچھ میڈیا چینلز نے رپورٹ کیا کہ صدر مملکت نے میڈیا کی موجودگی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کئے۔

دوسری طرف میڈیا اور نون لیگ کے راہنما یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیے کہ صدر پاکستان کو چاہیے کہ استعفیٰ دے دیں کہ اُن کو علم ہی نہیں معاملات کیسے چلانے ہیں۔ صدر پاکستان نے جب اپنے عملے سے کوتاہی کی وضاحت چاہی تو کسی نے بھی اُن کو مناسب جواب نہ دیا سارے معاملے کی چھان بِین کے بعد اُنہوں نے اپنے پرسنل سکریٹری وقار احمد کی خدمات واپس کر دیں کہ اس نے اپنے زمہ داری سے تجاوز کیا اور دھوکا دہی کا مرتکب ہوا ہے۔ صدر صاحب کے اس عمل کے بر عکس پرسنل سکریٹری نے جو وضاحت پیش کی اُس میں کہا کہ انہوں نے صدر کی ہدایات کے مطابق بل واپس بھجوا دیا تھا۔ ایک طرف اتنے حساس معاملے اور بل کے متنازعہ ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کا بینچ تشکیل دے دیا جس کے اگلے ہی دن نا صرف اُس کا قیام عمل میں آ گیا بلکہ اُسی دن سے اپنیذ مہ داری سنبھال لی اور کام شروع کر دیا اب تمام کڑیوں کو اگر ملا کے دیکھا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں جن کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے صدر پاکستان کے عہدے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ؟ اگر صدر پاکستان کا دفتر محلاتی سازشیوں سے محفوظ نہیں ہے تو باقی کون سا دفتر محفوظ رہ سکتا ہے ؟ جب ایک بل منظور ہی نہیں ہوا تو بینچ کیسے بن گیا ؟

ضروری یہ نہیں کہ صدر پاکستان کے دستخط نہ کرنے کے باوجود ۱۰ دن بعد یہ قانون بن جائے گا مسئلہ یہ ہے کہ اس درجہ اہم اور حساس معاملے پر کوتاہی کہاں پر ہوئی؟ کون آئین اور قانون کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے؟ اگر ایوان صدر میں جعلسازی کو نہیں روکا جا سکتا تو چھوٹے پیمانے پر جعلسازی کو کیسے روکا جا سکے گا؟ سوال تو بنتا ہے ان عدل کے ایوانوں سے بھی جب ملک کا سپریم کمانڈر اور صدر پاکستان یہ کہہ رہا ہے کہ اُس کے ساتھ دھوکا دہی کی گئی ہے تو بینچ کس قانون کے تحت بنایا گیا ؟ تحقیق تو پہلے اس جعلسازی پر ہونی چاہئے تھی لیکن یہ حقیقت کبھی سامنے نہیں آئے گی۔ اس معاملے میں اس قدر جھوٹ اور سچ کی آمیزش ہو چکی ہے کہ اگر کوئی اس گُھتی کو سلجھانا بھی چاہے تو نہیں سُلجھا سکے گا۔ اور اگر سُلجھا بھی لیا تو کبھی سچ سامنے نہیں لایا جائے گا کیونکہ جھوٹ اور سچ غلط اور صحیح کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔

وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

وسیم بریلوی

دوسرا واقعہ ۲۲ اگست کو بٹگرام چیئر لفٹ پر صبح سویرے پیش آیا جہاں سات بچے اور ایک اُستاد چیئر لفٹ کے زریعے سفر کر رہے تھے کہ چیئر لفٹ کا ایک رسہ ٹُوٹ گیا اور لفٹ دو پہاڑوں کے درمیان ۹۰۰ فٹ کی بلندی پر معلق ہو گئی۔ جیسے ہی یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تو پاکستان بھر کے لوگوں کی نظریں ٹیلی ویژن اسکرین پر سارا دن اس دعا کے ساتھ جمی رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان معصوموں کو خیر و عافیت سے اس مصیبت کی گھڑی سے نکالے۔ خدانخواستہ اگر کوئی انہونی ہو جاتی تو ملک ایک بہت بڑے قومی سانحے سے دو چار ہوتا۔ میڈیا کی ایسی منفی رپورٹینگ سارا دن ٹی وی اسکرین پر چلتی رہی کہ میڈیا نے سوائے کوفت اور سنسنی پھیلانے کے کچھ اور نہیں کیا۔ میڈیا نے رپورٹ کرنا شروع کیا کہ پاک فوج کے نوجوان ہیلی کاپٹر کےذریعے سے لوگوں کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور سارا دن میڈیا صرف پاک فوج کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا رہا اور اصل مسئلے کو بالکل نظر انداز کر گیا۔ سارا دن گزرنے کے بعد پاک فوج کے جوان صرف ان کو کھانا پہنچا سکے اور کسی کو بھی ریسکیو کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ہیلی کاپٹر کی ہوا کی وجہ سے ایک تار سی لٹکتی ہوئی ڈولی بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور خدشہ یہ تھا کہیں ڈولی کا رسہ ٹوٹ نہ جائے یقیناً یہ ایک خطرناک اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ بڑی جان فشانی کے بعد شام کے دھندلکے سے قبل پاک فوج ایک شخص کو ہیلی کوپٹر کےذ ریعے بچانے میں کامیاب ہو سکی اور شام گہری ہونے کی وجہ سے آپریشن دوسرے دن تک معطل کرنا پڑا۔

دوسری طرف مقامی لوگ انتظامیہ سے سارا دن درخواست کرتے رہے کہ اُن کو زپ لائن کے زریعے سے لفٹ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کا موقعہ دیا جائے وہ یہ کام جلد اور آسانی سے سر انجام دے سکتے ہیں جب کہ انتظامیہ ایسا کرنے پر سارا دن آمادہ نہ ہوئی، شام کے وقت جا کر کہیں مقامی افراد کو اجازت ملی۔ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پاک فوج کے جوانوں نے باقی سات افراد کو بھی چند گھنٹوں میں باحفاظت وہاں سے نکال لیا اور مجموعی طور پر ایک کامیاب آپریشن رہا۔

میڈیا اور حکومت یہ کامیابی فوج کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سویلینز اس کامیابی کو مقامی افراد کی جھولی میں ڈالنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایسے ایسے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ساری کی ساری کامیابی کا انحصار اُن کو جاتا ہے کسی دوسرے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ہر چیز عیاں ہے کہ اس اہم معاملے میں کس نے کتنا حصا ڈالا۔ ویڈیوز ثبوت موجود ہیں جہاں مقامی اور فوجی جوان اپنی اپنی کاوشیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور کسی کے حصے سے صَرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف آرمی نے یہ کریڈٹ اپنے نام لکھوانے کے لئے جلد بازی میں ایک تقریب منعقد کی جس میں عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے شرکت کی اور جو فوجی جوان اس آپریشن میں شامل تھے اُن کو انعامات سے نوازا۔ ہر طرح کی ویڈیوز کے باوجود اس معاملے کو اتنا اُلجھا دیا گیا ہے کہ جھوٹ اور سچ کی تمیز ختم ہو گئی ہے کہ کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ۔

معاشرے میں اب دروغ گوئی اور حرام کوئی مسئلہ نہیں رہا جھوٹ بول کر اُس پر نادم ہونے کی بجائے فخر سے بتایا جانا ایک آرٹ بن گیا ہے۔ اخلاقی پستی کا یہ زوال ہماری قوم کا مزاج بن چکا ہے یہ زوال کہاں جا کے رکے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

پروین شاکر کا اسی حوالے سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

حقائق کیسے مسخ ہوتے ہیں۔
Comments (0)
Add Comment