پوری دنیا میں شور بپا تھا G20 کانفرنس سے متعلق، ہمارے میڈیا میں شور تھوڑا مختلف تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان تشریف لا رہے ہیں، پھر خبریں آنے لگیں بھارت جاتے ہوئے چند گھنٹے قیام کریں گے۔ اسکے بعد خبریں آنے لگیں پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کریں گے۔ بھارت میں کانفرنس شروع ہو گئی مگر شہزادہ محمد بن سلمان نہیں آئے نا جانے کون لوگ میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں، جو دل میں آتا ہے کہنا اور بیان دینا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ لوگ سفارتی آداب سے ناواقف ہیں انکو پوچھنے اور پکڑنے والے ملک میں سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے خلاف کمر بستہ ہیں۔ انکا نام نہ لو انکی خبریں نشر نہ کرو ملک میں سب اچھا ہے یہی کہتے رہوبھارت نے G20 کانفرنس کی میزبانی نے بہت سے پیغامات دیے ہیں۔ ہمارے سیاست دان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اگر دیتے تو ان پیغامات کا جواب ضرور دیتے۔
کانفرنس میں شامل تمام ممالک نے بھارت کی خارجہ اور معاشی پالیسی پر بھرپور اعتماد کیا ہے ۔ برادر اسلامی ملک ترکیہ نے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ہم اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کریں گے۔ خلیجی ممالک نے کہا ہے بھارتی ہنرمندوں کے لیے مزید دو لاکھ ویزوں کا اجزاء کیا جائے گا ۔ تمام ممالک بھارت میں کثیر سرمایہ کاری کریں گے۔
اسکا مطلب ہے بھارت معاشی طور پر مزید مستحکم ہو جائے گا۔ جو بھی ممالک بھارت میں سرمایہ کاری کریں گے اپنے سرمایہ کو محفوظ بنائیں گے۔ اپنے سرمایہ کو محفوظ رکھنے کے لیے بھارت کی حمایت لازمی کریں گے۔تمام سربراہان کو خوش آمدید کہنے کے لیے وزیراعظم نندر مودی خود ایئرپورٹ نہیں گئے تھے۔ دنیا کو پیغام دیا بھارت ایک بڑا معاشی ملک ہے ، سرمایہ کاروں کو بھارت کی ضرورت ہے ۔
اس وقت بھارت صرف آئی ٹی کے شعبے میں ایک سو پچھتر ارب ڈالر سے زیادہ کا بزنس کر رہا ہے ۔ چین کے سی پیک کے مقابلے میں ایک نئی راہداری کا اعلان جاری کیا گیا ہے دوسری طرف بھارتی میڈیا نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا علاقہ کہہ کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔ G20ممالک کے ممبران مقبوضہ کشمیر میں انویسٹمنٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے آنے والے وقتوں میں وہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کی حمایت کریں گے۔
بھارت نے خصوصی طور پر بنگلہ دیش کو مدعو کر کے پاکستان کو پیغام دیا ہے ۔ علاقہ میں ہماری بالادستی کو قبول کر لو، ہمارے ساتھ دنیا کے بیس ممالک ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارت اپنی آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسیوں کی وجہ کر دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلانے کا حقدار سمجھا جاتا ہے ۔ایک طرف امریکہ سے دوستی تو دوسری طرف روس سے دشمنی نہیں ہے اور تیسری طرف چین سے تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں۔
نندر مودی نے بھارتی معیشت کو اپنے دور اقتدار میں پانچویں نمبر پر پہنچا دیا ہے ۔ آئی ٹی کی ترقی میں اپنا لوہا منوا چکا ہے ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں چاند پر چندریان کو بھیج کر حیرت زدہ کر دیا ہے ۔ کانفرنس میں شامل تمام ممالک کی ترجیحات میں صرف ایک ایجنڈا تھا معاشی ترقی۔ کانفرنس کے اختتام پر اعلامیہ جاری کرنے سے قبل بھارتی وزیر خارجہ نے کہا یہ بھارت ہے انڈونیشیا کا جزیرہ بالی نہیں ہے ۔ یہاں سے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا جائے گا ۔
یاد رہے G20 کی کانفرنس میں روس اور چین نے اپنے نمائندے بھیجے تھے۔ انکے سربراہان نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔ کانفرنس میں شامل تمام ملکوں نے بھارت کی منشا اور مرضی کی حمایت کرتے ہوئے روس اور چین کے خلاف بیان جاری نہیں کیا گیا۔ بھارت نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے سیاسی استحکام ہی ملک میں معاشی استحکام کی ضمانت دیتا ہے معاشی استحکام کے بعد ہی معاشی پالیسیاں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔
بھارت اس وقت اٹھائیس ملکوں کے ساتھ بھارتی روپہ میں تجارت کر رہا اب وہ G20 کے چند ممالک کے ساتھ بھی ڈالر کی بجائے بھارتی کرنسی میں تجارت کرے گا۔ معاشی ترقی نے بھارت کو اس مقام پر پہنچایا ہے جسکی وجہ کر آج اسکی اپنی آزاد خارجہ پالیسی ہے ۔کانفرنس میں تمام ممالک نے آزاد خارجہ پالیسی پر اعتماد کیا ہے ۔بھارت میں کثیر سرمایہ کاری کی راہ ہموار کر دی ہے۔