پاکستان عوامی سوسائٹی کویت کے زیر اہتمام بین الاقوامی آئین پر کانفرنس کا انعقاد
کویت (محمد عرفان شفیق ) پاکستان عوامی سوسائٹی کویت کے زیر اہتمام بین الاقوامی آئین پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام عطاء الٰہی کی کوششوں سے ترتیب دیا گیا۔ قرآنی آیات کی تلاوت قاری عبدالرشید نے کی اور اناشید پیش کی اور پھر قومی ترانے بجائے گئے۔
ڈاکٹر مصطفیٰ یعقوب بھبھانی نے غزہ کے مظلوم، بے بس، مجبور اور مظلوم عوام کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کروائی۔ کانفرنس کی صدارت شیخ الدعیج جابر العلی الصباح نے کی۔ میزبان ڈاکٹر مصطفیٰ یعقوب بھبھانی تھے۔
پروگرام کی انتظامیہ پاکستان عوامی سوسائٹی کویت کے دوستوں شاہد وسیم، فضالت چوہدری، میاں اشفاق، رضوان بھٹی، ملک اشفاق، آصف کمال اور ملک فیاض فوجی نے سنبھالی۔ اس کے علاوہ مقامی کویتی دوستوں کی ایک بڑی تعداد نمایاں تھی، جن میں معززین شامل تھے۔
السید احمد الحداد، ڈاکٹر عزیر، ڈاکٹر حسن کمال، ڈاکٹر زید الجتیلی ابو لولو ڈپلومیٹ، ڈاکٹر سعود النجادہ المحامی، السید انجنیئر خالد معراج، السید عبدالکریم الہندال ابو خالد المحام، السید محمد الرومی، ڈاکٹر موساد الفضلی، السید ڈاکٹر غدیر الکیانی، السید طارق عبدالغفار، السید کریم الدرویش، ڈاکٹر مریم بوشھری، السید حسن میداس، سفیر اسلامی جمہوریہ ایران محمد موموتونچی، سفیر بنین برائے کویت سُمانو ایسوف، بیلجئم کے سفیر ڈو مُتمو کریسٹ، تنزانیہ کے کویت میں سفیر سعد شعیب موسٰی، سفیر آسیان برائے کویت پورنیچائی ڈانویٹ ہینٹ، کینیا کی سفیر برائے کویت میڈم حلیمہ، سریلنکن سفیر برائے کویت، قازقستان کے ڈپٹی ہیڈ مشن، سفارتخانہ ترکیہ کے ہیڈ اور فرسٹ سکریڑی ہود محمد بلال سگلان، سفارتخانہ تشاڈ کے سنیر مستشار ڈاکٹر ابراہیم شعیب آدم، سفارت خانہ بلغاریہ کے قونصلر ایناطولی، سفارتخانہ چائینہ کے ہیڈ آف چانسری اور چارج ڈی افیئرز سفارت خانہ بنگلہ دیش کے فرسٹ سیکرٹری اسلام، سفارتکار تاجکستان کے چارج ڈی افیئرز، سفارت خانہ گونیا کے فرسٹ سیکرٹری اور دوسرے بہت سے معزز سفارتکار، متعدد اداروں کے سربراہان اور اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی۔
میوزیکل گروپ کے سربراہ اور امریکن ایسوسی ایشن کے نمائندے کے علاوہ السید ڈاکٹر احمد رفعت اور دیگر معززین نے شرکت کی۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک قوم کا تصور سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا جس میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور ریاستوں سے تعلقات اور ان کے حقوق کا تعین کیا گیا تھا۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے قوانین کے مطابق اپنے اندرونی فیصلے کرنے کی اجازت تھی لیکن جہاں دوسروں کے حقوق پامال ہوں گے، وہاں ان کے حقوق کی ذمہ داری ریاست مدینہ پر ہوگی۔ اور غریبوں کو ریاستی ٹیکس سے مستثنیٰ کیا گیا تھا تاکہ کسی غریب پر ٹیکس کا بوجھ نہ پڑے۔ ریاست مدینہ کا ماڈل دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کے لیے رول ماڈل ہے۔ آج بھی اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو تو وہ مدینہ کے ماڈل کو نافذ کرے۔ آج ترقی یافتہ ممالک بھی انسانیت کی وہ اقدار فراہم نہیں کر سکتے جو انہیں مدینہ کے آئین (750 الفاظ) نے دی تھی۔
ڈاکٹر حسن محی الدین القادری نے سفارت خانہ تنزانیہ کے سفیر کو الوداعی شیلڈ پیش کی۔آخر میں شیخ السید الدعیج جابر العلی الصباح اور ڈاکٹر مصطفیٰ یعقوب بھبھانی نے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کو ان کی شاندار خدمات پر اعزازی شیلڈ پیش کی۔