فلسطینیوں پرمظالم، برطانوی ایوانوں میں کھلبلی

غزہ اور مغربی کنارے پر جدید ہتھیاروں سے اسرائیلی حملے جاری ہیں۔7اکتوبر2023 کو حماس کے اسرائیلی بستی پر حملے میں تقریباً 1400 افراد ہلاک ہوئے۔ جوابی کارروائی میں تقریباً 8000سے زاہد فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں اور اموات میں فی گھنٹہ اضافہ ہورہا ہے جبکہ 3000بچے بھی مرنے والوں میں شامل ہیں۔اقوام متحدہ نے غزہ میں جنگ بندی کی جو قرار داد منظور کی ہے اسے بھی اسرائیل نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ عرب ممالک کی ایک مشترکہ قرارداد جسے اردن نے پیش کیا تھا کو کثرت رائے سے منظور تو کرلیا گیا ہے لیکن اسرائیل ایسی قراردادیں سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ برطانیہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں حکومتی کنزرویٹو پارٹی کے وزیر اعظم رشی سوناک اور مین اپوزیشن لیبر پارٹی کے لیڈر سر کئیر سٹارمر اسرائیلی ردعمل کی حمایت کر رہے ہیں اگرچہ ان پر ان کے ووٹروں کی طرف سے اسرائیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے دباؤ بڑھ رہا ہے البتہ لبرل ڈیموکریٹس جو نسبتاًچھوٹی مین سٹریم جماعت ہے اس کا موقف قدرے مختلف ہے، بالخصوص اس جماعت سے کشمیری اوریجن تاحیات لارڈ قربان حسین نے برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز میں مسئلہ فلسطین کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ تفصیل کے ساتھ اٹھایا ہے۔

لارڈ قربان حسین نے ہائوس آف لارڈز میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعہ کے تناظر میں جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے حماس کے حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی کارروائیوں سے پیداشدہ صورتحال کی عکاسی کی ہے، انہوں نے اس کے متعلق برطانیہ کے رول کو اجاگر کرتے ہوئے جہاں حماس پر مغویوں کی رہائی پر زور دیا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ غزہ میں المناک صورتحال درپیش ہے جو برطانیہ کی حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے انہوں نے ہائوس آف لارڈز کو بتایا کہ جہاں 7اکتوبر کو برطانیہ کی حکومت کی طرف سے ممنوعہ دہشت گرد تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر حملہ سے تازہ ترین اندازے کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد، عسکریت پسندوں کو چھوڑ کر، 1400ہے، جب کہ 4600سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ اور حماس کے جنگجوؤں نے بھی مبینہ طور پر کم از کم 200 افراد 20 بچوں سمیت یرغمال بنائے گئے جبکہ حماس کے حملوں کے جواب میں، اسرائیل نے محاصرے میں لیے گئے انکلیو کے خلاف مسلسل بمباری کی مہم شروع کی، جس سے پڑوس کے بعد محلے مسمار ہوئے۔

جبکہ غزہ کی وزارت صحت کی تازہ ترین میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ 7اکتوبر سے غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5000ہو گئی ہے۔ خواتین اور بچوں کی اموات میں 62 فیصد سے زیادہ ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے 35 کارکنوں سمیت 15,200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اور وہ ہر طرف سے تمام بے گناہ لوگوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہزاروں عمارتوں کے تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں رہائشی بلاکس، اسپتال، مساجد اور گرجا گھر شامل ہیں۔ اس علاقے میں 10لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جو کہ محاصرے میں ہے اور بڑی حد تک پانی، خوراک اور دیگر بنیادی اشیاء سے محروم ہے۔

یہ اجتماعی سزا بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے اور یہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہو سکتی ہے۔ لارڈ قربان حسین نے کہا کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر غزہ پر زمینی حملہ کرنے کے لیے 360,000 IDF فوجیوں کی ایک فورس جمع کی ہے اور غزہ شہر کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ IDF فورسز کی جانب سے زمینی حملے کے منصوبے سے قبل انخلاء کریں۔ تاہم، نقل مکانی کرنے والوں پر مزید فضائی حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں، جن میں یہ سوالات اٹھائے گئے کہ اتنی بڑی آبادی والے علاقے سے انخلاء کتنا ممکن ہے۔ لارڈ قربان حسین نے ہاوس کی توجہ دلائی کہ حماس کے ابتدائی حملوں کے بعد سے، مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان مہلک جھڑپیں شروع کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 20 بچوں اور ایک اسرائیلی فوجی سمیت 79 فلسطینی مارے گئے ہیں۔

انہوں نے ہاوس آف لارڈز پر یہ بھی واضح کیا کہ یہ تنازعہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع نہیں ہوا تھا۔ غزہ ایک دیوار والا علاقہ ہے، 25 میل لمبا اور چھ میل چوڑا۔ خوراک، پانی اور بنیادی سہولیات کا بہاؤ اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کے طور پر سب سے زیادہ انسانی گروپوں نے تسلیم کیا ہے۔ لوگ روزانہ کی بنیاد پر موت کو آنکھوں میں گھورتے ہوئے وہاں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی دنیا نے اسے معمول بنا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں حقائق کی یاد دہانی کرانی چاہیے وہ حقائق جو تقریباً 70 سالوں میں نہیں بدلے ہیں۔ انہوں نے 2022 کی رپورٹ میں، آزاد تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "چاہے وہ غزہ، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے باقی حصوں میں رہتے ہوں، یا خود اسرائیل، فلسطینیوں کے ساتھ ایک کمتر نسلی گروہ کے طور پر سلوک کیا جاتا ہے اور منظم طریقے سے ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

ہم نے… اسرائیل کی اپنے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں علیحدگی، تصرف اور اخراج کی ظالمانہ پالیسیاں پائی ہیں۔ہمیں جنگ بندی کی حمایت کرنے اور اسرائیلی حکومت کو انسانی امداد، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی شمالی علاقوں کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی کے جنوب تک پہنچانے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مکمل طور پر پٹی. تنازعہ مزید 70 سال تک دائروں میں نہیں چل سکتا۔ ہمیں اسے حل کرنے میں مدد کے لیے سب کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا فلسطینیوں کی ایک اور نسل کو ناکام نہیں کر سکتی۔مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر حصوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اکثر اس ملک کی بہت سی برادریوں میں تشویش کا باعث بنتا ہے۔ برطانیہ کو ہمارے تنوع پر فخر ہے، جہاں تمام عقائد، رنگوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر کام کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ ایوان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے متحد رہے گا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں ہونے والے واقعات ہمارے ملک میں کسی بھی قسم کی یہود دشمنی، اسلامو فوبیا یا نسل پرستی کو جنم نہ دیں۔یہاں لیبر پارٹی کے مئیر لندن صادق خان کا ذکر بھی ضروری ہے، مئیر لندن صادق خان نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا لندن کے میئر کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ لیبر لیڈر پر دباؤ ڈالتا ہے۔

لندن کے میئر صادق خان نے جمعہ کو اسرائیل اور حماس کی جنگ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا، جو کہ ان کی لیبر پارٹی کی طرف سے اسرائیل کے محصور غزہ کی پٹی میں امداد کی اجازت دینے کے لیے لڑائی میں انسانی بنیادوں پر توقف کی اپیل سے ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ کہ فوجی اضافہ غزہ میں انسانی بحران کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ وہ جنگ بندی کے مطالبے میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ شامل ہیں ۔ اس سے ہلاکتیں بند ہو جائیں گی اور غزہ میں ضروری امدادی سامان ان لوگوں تک پہنچ سکے گا جنہیں اس کی ضرورت ہے، اسی طرح بریڈ فورڈ سے لیبر شیڈو وزیر عمران حسین ایم پی بیڈفورڈ سے محمد یاسین ایم پی، افضل خان ایم پی، بیرونس سعیدہ وارثی سمیت 39ممبران نے پارلیمانی پٹیشن پر دستخط کیے جس کے ذریعے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشیدگی میں کمی لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بیڈفورڈ سے لیبر ایم پی محمد یاسین نے ہاوس آف کامنز میں مسئلہ اٹھایا جو بھی لارڈز اور ایم پیز اس اہم مسئلہ پر آواز بلند کر رہے ہیں لوگ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں _ آکسفورڈ سے متعدد لیبر پارٹی کونسلرز اس مسئلے پر لیبر پارٹی سے مستعفی ہوگئے البتہ ایوان اور پارلیمنٹ میں بیٹھے بہت سے مسلمان جو مسلم ووٹ بینک کی بنیاد پر منتخب ہوئے ہیں خاموشی سے پارٹی لیڈروں کے فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم ان میں بھی اپنی اپنی پارٹیوں سے استعفیٰ دینے کی ہمت نہیں ہے حالانکہ ان کے ووٹرز ان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ لوگ یہ بھی نوٹ کر رہے ہیں ان میں سے کسی نے بھی لندن میں فلسطینی حمایتی ریلیوں میں بات نہیں کی اور نہ ہی اس میں شرکت کی۔ تاہم پارٹی رہنماؤں کی جانب سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہ کرنے پر درجنوں کونسلرز احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ برطانیہ میں اسرائیل اور فلسطین تنازعہ پر کمیونٹیز کے درمیان تقسیم اور دراڑیں گہری ہوتی جارہی ہیں اگر اس مسئلے کو جلد حل نہ کیا گیا تو یہ تنازعہ ہاتھ سے نکل جائے گا کیونکہ خطے کے زیادہ تر مسلم رہنما اپنی عوام کی طرف سے مداخلت کے لیے شدید دباؤ میں ہیں، اس لیے مغرب کے لیے فوری ضرورت ہے کہ وہ اس نسل کشی کو روکے اور انسانیت کو ایسی جنگ سے بچائے جس سے لاکھوں اموات ہوسکتی ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں پھنسے فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کی ضرورت ہے لوٹن سے سابق مئیر طاہر ملک، ڈپٹی اپوزیشن لیڈر راجہ اسلم خان اور دیگر کی لیبرپارٹی اور کنزرٹیو پارٹی چھوڑنے کو ایک اطلاعات ہیں جبکہ برطانیہ اور یورپ بھر میں آزاد فلسطین کے حق میں مظاہرے کیئے جارہے ہیں جن میں تمام ممالک کے باشندے شرکت کررہے ہیں جن کا موقف ہے امن کے لیے کام کریں طاقت ور کا ساتھ نہ دیں تاہم مسلمان ممالک کی قیادت پر مسلمانوں میں سخت فرسٹریشن پائی جاتی ہے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعات پر ازادی اظہار رائے پر بھی پہلے جیسی آزادی نہیں ہے چونکہ یوکے حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔

پکارشیراز خانفلسطینیوں پرمظالم
Comments (0)
Add Comment