بیجنگ(ویب ڈیسک) بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے چین کے خودمختار کریڈٹ کی تازہ ترین ریٹنگ رپورٹ جاری کی، جس میں چین کی اے 1 ریٹنگ برقرار رکھی گئی ، لیکن اس کے مستقبل کو مستحکم سے منفی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موڈیز نے واضح طور پر چین کی اعلیٰ معیار کی معاشی تبدیلی کے عمل کی خصوصیات اور خطرات پر قابو پانے میں چین کی حاصل شدہ کامیابیوں کا غلط اندازہ لگایا ہے اورموڈیز کی چین کے ریٹنگ آؤٹ لک کی ایڈجسٹمنٹ چین کی معاشی ترقی کے عمدہ رجحان کو متاثر نہیں کرےگی۔سب سے پہلے تو موڈیز نے یہ اندازہ غلط لگایا کہ چین کی رئیل اسٹیٹ میں مندی چین کی درمیانی مدت کی اقتصادی ترقی میں ایک رکاوٹ ہوگی۔ موڈیز نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے چین کی معاون پالیسیوں کے حالیہ سلسلے کو مدنظر نہیں رکھا۔ درحقیقت، چین کی رئیل اسٹیٹ کی ترقی میں کافی مثبت تبدیلی آئی ہے۔
اس سال اگست میں ، "سستے مکانات کی منصوبہ بندی اور تعمیر پر رہنما رائے” نامی پالیسی دستاویز جسے "نئی ہاؤسنگ اصلاحات” کے نام سے جانا جاتا ہے ، نے یہ واضح کیا کہ چین مستقبل میں سستے مکانات کی تعمیر اور فراہمی میں اضافہ کرے گا ، جبکہ بہتر ہاؤسنگ کی طلب کو پورا کرے گا ، اور رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کی تبدیلی اور اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دے گا۔ چند اسٹاک کمرشل ہاؤسنگ کو سستی رہائش میں تبدیل کرنے کے لئے ماہرین کی کچھ تجاویز بھی زیر غور ہیں۔ 24 نومبر کو جاری ہونے والے "رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں مالیاتی خدمات کو مزید بہتر بنانے کا نوٹس” رئیل اسٹیٹ انٹرپرائزز کی فنانسنگ اور لیکویڈیٹی کے مسائل کو حل کرنے پر مرکوز ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے رئیل اسٹیٹ انٹرپرائزز کے سرمائے کے پہلو کی بحالی اور مارکیٹ کی رسد اور طلب کے پہلو کی "برقراری اور ترقی” سے رئیل اسٹیٹ کی موجودہ مشکلات پر قابو پانے کی مکمل طور پر توقع کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، موڈیز نے چین کی مقامی مالیات کی زمین کے حق َاستعمال کی منتقلی سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصاری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ درحقیقت، چین کی مقامی مالیات میں زمینوں سے خالص آمدن کا زمینوں کے حق َاستعمال کی منتقلی سے حاصل ہونے والی آمدنی میں تناسب صرف 20 فیصد ہے جبکہ مقامی مالیات میں اس کا تناسب اس سے بھی کم ہے. اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے ، جو تین بڑی ریٹنگ ایجنسیوں میں سے ایک ہے، اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ چین کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ مشکل ترین مرحلے سے گزر چکی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ موڈیز چین کے مقامی قرضوں کے ملک کی مالی صلاحیت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں متعصب ہے۔ پیمانے کے لحاظ سے ، 2022 کے اختتام تک ، چین میں تمام حکومتی قرضوں کا حجم61 ٹریلین یوآن تھا ، جو جی ڈی پی کا 50.4فیصد تھا ۔ یہ معیار بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ 60فیصد کی انتباہی لکیر ،بڑی مارکیٹ معیشتوں اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ والے ممالک سے بھی کم ہے۔
علاوہ ازیں، چینی حکومت مقامی حکومتوں کے پوشیدہ قرضوں کو حل کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے، جن میں باقاعدگی سے نگرانی کے طریقہ کار کو بہتر بنانا، پوشیدہ قرضوں میں اضافے کو روکنا، موجودہ قرضوں کو حل کرنا، اور نگرانی اور احتساب کے میکانزم کو بہتر بنانا (تاحیات احتساب اور ریورس انویسٹی گیشن کے نظام کو فروغ دینا)شامل ہیں. نفاذ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو چین کے مقامی پوشیدہ قرضوں کا پیمانہ بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے ، اور خطرات کو کم کیا گیا ہے۔ چین کی مالی آمدنی کے لحاظ سے رواں سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں چین میں محصولات کی آمدنی میں 11.9 فیصد اضافہ ہوا۔ مقامی آمدنی میں سال بہ سال 9.1 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور تقریباً نصف علاقوں میں ڈبل ڈیجٹ کی ترقی حاصل ہوئی۔تیسرا یہ کہ موڈیز نے چین کی اقتصادی ترقی میں سست روی کے خطرے کی نشاندہی کی، جو حقائق سے بھی زیادہ متضاد ہے۔ رواں سال چین کی معیشت نے ملکی اور غیر ملکی خطرات اور چیلنجز کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اور مجموعی طور پر ایک مسلسل عمدہ رجحان کو برقرار رکھا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پہلی تین سہ ماہیوں میں چین کی جی ڈی پی میں سال بہ سال 5.2 فیصد اضافہ ہوا۔
کھپت کے اخراجات نے معاشی ترقی میں 83.2 فیصد کا حصہ ڈالا ، جس سے جی ڈی پی کی نمو میں 4.4 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ حال ہی میں عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور او ای سی ڈی نے ظاہر کیا ہے کہ چین 5 فیصد کی متوقع شرح نمو کا ہدف حاصل کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے مزید یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 22.6 فیصد تک پہنچ جائے گا جبکہ امریکہ کا حصہ صرف 11.3 فیصد تک ہو گا ۔درحقیقت یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تین بڑی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے چین کے ریٹنگ آؤٹ لک کو کم کیا ہے۔ موڈیز ہی کی بات کریں تو وہ بالترتیب اپریل 2013، مارچ 2016، مئی 2017 اور دسمبر 2023 میں یعنی اس سے قبل چار بار ایسا کر چکا ہے ۔ ایس اینڈ پی نے جولائی 1998، جولائی 1999، مارچ 2016 اور ستمبر 2017 میں یعنی چار بار ،جبکہ فچ نے اپریل 2011 اور اپریل 2013 میں یعنی دو بار ایسا کیا تھا۔
سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ 1998 کے بعد سے، ان تین بڑی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے بار بار چین کے معاشی زوال کا جو اندازہ لگایا ہے ، لیکن اسے تاریخ اور حقیقت نے غلط ثابت کیا ہے۔ دنیا نے جو کچھ دیکھا ،وہ یہ ہے کہ گزشتہ 25 سالوں میں چین آہستہ آہستہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔مغرب میں چین کے معاشی زوال کے بارے میں اندازہ لگانا کوئی نئی چیز نہیں ہے ، مگر دنیا میں حقیقت پسند سوچ رکھنے والوں کی کمی بھی نہیں ہے۔ چند روز قبل ہی جارج ڈبلیو بش فاؤنڈیشن آن یو ایس چائنا ریلیشنز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین نیل بش نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا کہ چین کی 5 فیصد کی معاشی ترقی کو زوال پزیری سمجھا جاتا ہے جبکہ 2 فیصد کی امریکی معاشی نمو پر واہ واہ کی جاتی ہے ۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2023 کے اختتام تک کل 1110 غیر ملکی اداروں نے چین کی بانڈ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی ہے اور غیر ملکی اداروں کے پاس موجود چینی بانڈز کی کل مالیت 3.3 ٹریلین یوآن ہے جو 2017 کے اختتام سے تقریباً 200 فیصد زیادہ ہے۔ 2019 کے بعد سے ، بلومبرگ بارکلیز ، جے پی مورگن چیس اور ایف ٹی ایس ای رسل کے تین بڑے بین الاقوامی بانڈ انڈیکس میں چینی بانڈز کی مالیت شمولیت کے وقت متوقع ہدف سے تجاوز کر گئی ، جو چین کی معیشت کی طویل مدتی بہتری میں عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔جی ہاں، چین کی معیشت مسلسل اپ گریڈ ہو رہی ہے. ہمارے پاس اس یقین کی ہر وجہ ہے کہ مستقبل میں چین کی معیشت اور بہتر ہوگی۔