واشنگٹن (ویب ڈیسک) بیجنگ میں مقیم ترکی کی اناتولو نیوز ایجنسی کے سابق نامہ نگارکامل اردوان نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں چین نے دنیا بھر کے دوستوں کو چین کا دورہ کرنے کے لئے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے دروازے کھولے ہیں، اور اس کی وجہ سے چین کا عالمی اثر و رسوخ اور ساکھ بڑھتی جا رہی ہے۔لیکن اس کے برعکس گزشتہ پانچ برسوں کے دوران امریکہ نے مغربی صحافیوں کو ’’رائے عامہ کے ٹھگوں‘‘ کی تربیت دینے کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے جو چین کے بارے میں غلط معلومات مہیا کرتے ہیں۔
میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یورپی اسکالر جان اوبرگ نے نشاندہی کی کہ ان جیسے مغربی لوگ جو چین جا چکے ہیں یا چین میں رہ چکے ہیں وہ چین کے نقطہ نظر سے چین کو سمجھ سکتے ہیں۔ چین کے بارے میں مغربی میڈیا کی کوریج کے حوالے سے ایسے افراد کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ ان کے خیال میں جتنا چین کو انہوں نے دیکھا ہے اس لحاظ سے چین کی جانب سے امریکہ کے لیے کوئی "خطرہ” نہیں ہے لیکن امریکہ چین کو دھمکانے کے لئے مختلف حیلے بہانوں کا استعمال کر رہا ہے ۔
درحقیقت بین الاقوامی رائے عامہ کے میدان میں امریکی خبر رساں اداروں نے اپنے ملک کی افواج کی طرح بہت سے ممالک میں سیاسی افراتفری پیدا کی ہے اور یہاں تک کہ دوسرے ممالک کی حکومتوں کو ختم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ سی آئی اے نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس ادارے نے ماضی میں دنیا بھر میں جعلی خبریں شائع کرنے کے لیے سیکڑوں صحافیوں اور متعدد تنظیموں کو ’خریدا‘ ہے۔حالیہ برسوں میں، امریکہ کی حمایت سے، نام نہاد "آزاد میڈیا” اور ” تیسرے فریق ” میڈیا نے بھی اپنا آغاز کیا ہے۔
چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے اور ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے کے بارے میں مسلسل من گھڑت جھوٹی خبریں سامنے آتی رہی ہیں ۔ وبائی مرض کے دوران ان میڈیا اداروں نے دوسرے ممالک میں بھی چین کے خلاف نفرت کو ہوا دی۔ ان کا مقصد بہت واضح ہے،اور وہ یہ کہ چین کو بدنام کیا جائے اور اس کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی جائے۔