نیروبی (تارکین وطن نیوز) پاکستان کے دریائے سندھ کے آبی رقبے کے تحفظ اور بحالی کے لیے مقامی کمیونٹیوں اور سول سوسائٹی کی طبقات کی کوششیں جو تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی تھیں، اب حکومت ِپاکستان کے "لیونگ انڈس انیشی ایٹو” کے ذریعےمستحکم ہو رہی ہیں۔فطرت پر مبنی حل کے ذریعے حیاتیاتی تنوع ، آب و ہوا میں تخفیف اور کمیونٹی کے استحکام کو فروغ دینے کی ان کوششوں کے نتیجے میں آج اسے اقوام متحدہ کے سات عالمی بحالی کے پرچم برداروں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
عالمی بحالی کے پرچم برداروں کے ایوارڈز اقوام متحدہ کے ماحولیاتی نظام کی بحالی کی دہائی کا حصہ ہیں جس کی قیادت اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت (FAO) کر رہے ہیں۔ جس کا مقصد ہرایک براعظم اور ہر ایک سمندر کے ماحولیاتی نظام کے انحطاط کو روکنا، بند باندھنا اور اسے واپس پلٹانا ہے۔ ایوارڈز ایک بلین ہیکٹر جو چین سے بڑا علاقہ ہے، اس کی بحالی کے عالمی وعدؤں کے ضمن میں قابل ذکر اقدامات کرنے کا پتہ لگاتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ احمد عرفان اسلم نے کہا کہ”لیونگ انڈس ” موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں انڈس کے ماحولیاتی نظام کے استحکام کو فروغ دینے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔یہ جامع حکمت عملی دریائے سندھ کے تمام آبی رقبے کی بحالی، پاکستان کے لوگوں کے لیے اس کے وسائل کے تحفظ کے لیے کمیونٹی کی قیادت میں صنفی اقدام اور شفاف فطرت پر مبنی حل پیش کرتی ہے۔”
یہ آبی رقبہ 195 ممالیہ جانوروں کی نایاب انواع، کم از کم 668 پرندوں کی اقسام اور 150 سے زائد مچھلیوں کی انواع کا مسکن بھی ہے جن میں 22 مقامی اور خطرے سے دوچار انڈس بلائنڈ ڈولفن شامل ہیں جو دنیا کے نایاب ترین جانوروں میں سے ایک ہے۔
پاکستان نے حالیہ برسوں کے دوران انتہائی تباہ کن سیلابوں اور شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ فضائی آلودگی کی سطح میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہوا ہے اور اس نے لاکھوں زندگیوں اور روزگار کے مواقع کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
UNEP کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ "حالیہ برسوں کے دوران پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی نے دل دہلا کر رکھ دیاہے جسے کوئی بھی قوم قبول نہیں کر سکتی اور نہ ہی اسے قبول کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ "لیونگ انڈس ” جیسے پراجیکٹس کو تسلیم کیا جائے جن سے پاکستان اور خطے کواُمید اور استحکام ملے اور در پیش خطرات کم ہوسکیں ۔”
"لیونگ انڈس ” دریائے سندھ کے آبی رقبے کے پائیدار انتظام کو آگے بڑھاتا ہے جس کا مقصد پانی کے وسائل کے استعمال، ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور سماجی و اقتصادی ترقی میں توازن پیدا کرنا ہے۔
یہ پاکستان میں پانی کے ذمہ دارانہ انتظام کو فروغ دینے، آلودگی کو کم کرنے، حیاتیاتی تنوع کو محفوظ کرنے اور کمیونٹی کی شمولیت میں اضافہ کرنے کے ذریعے موسمیاتی لحاظ سے مستحکم مستقبل کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
آبی رقبے کا وسیع اقدام پہلے ہی 1,350,000 ہیکٹر کو بحال کر چکے ہیں ۔ اس میں ایسے 25 منصوبے شامل ہیں جن کی 17 بلین امریکی ڈالر تک لاگت کا تخمینہ لگایا گیاہے۔ عالمی بحالی کے عظیم کام کے اس اعتراف کے ساتھ "لیونگ انڈس ” اب اقوام متحدہ کی اضافی تکنیکی اور مالی معاونت کے لیے اہل ہو جائے گا جس سے 2030 تک دریائے سندھ کے آبی رقبے(پاکستان کے 30 فیصد سے زیادہ رقبے پر محیط) 25 ملین ہیکٹر رقبے کو بحال کرنے کے پراجیکٹس کو تقویت ملے گی ۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے سابق ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے کہا کہ "پاکستان اور اس کے لوگ 6000 سالوں سے دریائے سندھ کے طاس کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ آج 95 فیصد آبادی اور ملک کی تمام زراعت اور اس کی زیادہ تر صنعتوں کا انحصار اسی دریا پر ہے۔تاہم، یہ نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہے بلکہ انسان کی پیداکردہ ماحولیاتی انحطاط سے بھی دوچار ہواہے۔ "لیونگ انڈس ” حکومت، سول سوسائٹی، اقوام متحدہ اور ان تمام ممالک کو اکٹھا کرتا ہے جو دریائے سندھ کے مستقبل کے تحفظ کے لیے پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔
عالمی بحالی کے پرچم بردار کے طور پر "لیونگ انڈس ” کسی بھی ملک یا خطے میں بڑے پیمانے اور طویل المدتی ماحولیاتی نظام کی بحالی کی بہترین مثالوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی نظام کی بحالی کی دہائی کے 10 اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔ عالمی بحالی کے سات نئے پرچم برداروں کا اعلان 26 فروری سے 1 مارچ 2024 کے درمیان منعقد ہونے والی 6ویں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی (UNEA-6) سے پہلے کیا گیا تھا۔ یہ اسمبلی موسمیاتی تبدیلی کے بحران، فطرت اور حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور آلودگی اور فضلہ جیسےمسائل کا حل پیش کرنے کے لیے نیروبی، کینیا میں دنیا کے ماحولیاتی وزراء کو بلائے گی۔
شراکت دار تنظیموں کے بارے میں:
ماحولیاتی نظام کی بحالی سے متعلق اقوام متحدہ کی دہائی کے بارے میں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2021-2030 کو ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ کی دہائی قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کی سربراہی میں اپنے شراکت داروں کے تعاون کے ساتھ یہ پروگرام دنیا بھر میں ماحولیاتی نظام کے نقصان اور انحطاط کو روکنے، بند باندھنے اور اسے پلٹنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اربوں ہیکٹر کے رقبے کو بحال کرنا ہے جس میں زمینی اور آبی ماحولیاتی نظام شامل ہیں۔ گلوبل کال ٹو ایکشن، اقوام متحدہ کی دہائی نے مل کر سیاسی حمایت، سائنسی تحقیق اور مالیاتی انتظام کے ذریعے بڑے پیمانے پر بحالی کے لیے کام کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی بحالی کے پرچم برداروں کے بارے میں
کئی ممالک پہلے ہی پیرس موسمیاتی معاہدے، ایچی اہداف برائے حیاتیاتی تنوع، زمینی انحطاط کاانتظام کے اہداف اور بون چیلنج کے اپنے وعدوں کے حصے کے طور پر 1 بلین ہیکٹر ۔ چین سے بڑا رقبہ۔ کو بحال کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ تاہم، اس بحالی کی پیشرفت یا معیار کے بارے میں بہت کم معلوم ہواہے۔ عالمی بحالی کے پرچم برداروں کے ساتھ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی نظام کی بحالی کی دہائی کسی بھی ملک یا خطے میں بڑے پیمانے اور طویل المدتی ماحولیاتی نظام کی بحالی کی بہترین مثالوں کا اعتراف کرتی ہے جو بحالی کے 10اصولوں کو مستحکم بنا رہے ہیں ۔ عالمی بحالی کی کوششوں پر نظر رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی دہائی کا پلیٹ فارم ماحولیاتی نظام کی بحالی کی نگرانی کے فریم ورک کے ذریعے تمام عالمی بحالی کے عظیم کاموں کی پیش رفت کی شفاف نگرانی کی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے بارے میں
UNEP ماحولیات پر عالمی سطح پر آواز اٹھانے والی نمایاں آواز ہے۔ یہ پروگرام قیادت فراہم کرتا ہے اورماحولیات کی دیکھ بھال کرنے کے لیے شراکت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ مستقبل کی نسلوں کے ساتھ سمجھوتہ کیے بغیر قوموں اور لوگوں کو ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے قابل اوراہل بنایاجائے۔
ادارہ خوراک و زراعت (FAO) کے بارے میں
FAO اقوام متحدہ کا ایک خصوصی ادارہ ہے جو بھوک کو شکست دینے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کرتا ہے۔ اس کا مقصد سب کے لیے غذائی تحفظ حاصل کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ لوگوں کو فعال اورصحت مند زندگی گزارنے کے لیے اعلیٰ معیار کی خوراک تک باقاعدہ رسائی حاصل ہو۔ FAOدنیا کے 194 رکن ممالک کے ساتھ دنیا بھر میں 130 سے زیادہ ممالک میں کام کرتا ہے۔
ادارہ خوراک و زراعت (FAO) موسمیاتی تبدیلیوں کو اپنانے اور اس کو کم کرنے دونوں میں حکومت پاکستان کی مدد کرتاہے۔ مختلف منصوبوں اور وسائل کے ذریعے، FAO موسمیاتی مطابقت پذیر حکمت عملیوں کی تخلیق میں معاونت فراہم کرتا ہے، باخبر فیصلہ سازی میں سہولت دینے کے لیے ڈیٹا سسٹم قائم کرتا ہے اور مختلف انتظامی سطحوں پر پانی اور زمینی وسائل کے انتظام کو تقویت دیتا ہے۔
ادارہ خوراک و زراعت (FAO)”حیات پرور دریائے سندھ کے اقدام” کی حمایت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری، حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ FAO تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے اورباہمی تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے جس کا مقصد پاکستان کی 80 فیصد آبادی کے لیے دریائے سندھ کے آبی رقبے میں موسمیاتی استحکام حاصل کرنا ہے۔
پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری
یہ وزارت موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان جیسےاہم عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وزارت جوماحولیاتی مسائل سے نمٹنے اور ان پر قابو پانے کے پائیدار طریقوں کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی ہے ، اس سلسلے میں پالیسی کی تشکیل اور نفاذ میں سب سے آگے آگے رہی ہے۔ بین الاقوامی تعاون اور ملکی کوششوں کے ذریعے وزارت موسمیاتی تبدیلی ،پاکستان ملک کے لیے ایک سرسبز اور زیادہ مضبوط و پائیدار مستقبل تشکیل دینے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ رابطہ کاروں ( کوآرڈینیٹرز)کا دفتر
اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر کا دفتر پاکستان اور بیرون ملک اقوام متحدہ کی معاونت کے لیے ون اسٹاپ شاپ کے طورپر کام کرتاہے۔ یہ اقوام متحدہ کے نظام کے تمام اداروں کا احاطہ کرتا ہے جن کا ملک میں ان کی رسمی موجودگی سے قطع نظر ترقی و تعمیر کے لیے آپریشنل سرگرمیوں سے تعلق ہے ۔ ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹرز کے نظام کا مقصد اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے کام کو یکجا کرنا ہے تاکہ ملکی سطح پر آپریشنل سرگرمیوں کی کارکردگی اور کارگزاری کو بہتر بنایا جا سکے۔
2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے تناظر میں ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹرز آفس تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بلانے میں کامیاب رہا جس کے نتیجے میں حیات پرور دریائے سندھ کے اقدام کا تصور پیش کیا گیا اور 25 اقدامات کی ایک "موثر فہرست” کو ایک ساتھ شامل کیا گیا جو ماحولیاتی نظام کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلی کے مدافعتی پاکستان کی تعمیر کرتےہیں۔