بیجنگ (ویب ڈیسک) امریکہ نے ایک بار پھر محصولات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چین پر زیر عمل دفعہ 301 ٹیرف کی بنیاد پر، وہ برقی گاڑیوں، لیتھیم بیٹریوں، فوٹو وولٹک سیلز، اہم معدنیات، سیمی کنڈکٹر، اسٹیل اور ایلومینیم، پورٹ کرین، ذاتی حفاظتی سامان اور چین سے درآمد کی جانے والی دیگر مصنوعات پر محصولات میں مزید اضافہ کرے گا. ان میں چینی الیکٹرک گاڑیوں پر محصولات کو موجودہ 25 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کیا جائے گا۔ اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے امریکہ دفعہ 301 کے ٹیرف کا غلط استعمال کرکے چین کو مسلسل دبا رہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔
جہاں تک امریکی دفعہ 301 ٹیرف کا تعلق ہے، عالمی تجارتی تنظیم طویل عرصے سے واضح کرتی آئی ہے کہ یہ ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ایک ایسا عمل ہے جو بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے۔ ایک ایسے ملک کے طور پر جو خود کو "قانون کی حکمرانی” پر قابل فخر شمار کرتا ہے، امریکہ اپنی غلطیوں کو درست کرنے کے بجائے چین پر الزام تراشی کرتا ہے اور قانون سے بخوبی واقفیت کے باوجود قانون شکنی کرتا ہے ۔ یہ غلطیوں میں اضافے پر مبنی قانون کی صریح خلاف ورزی اور تسلط پسندانہ عمل ہے۔ درحقیقت امریکہ میں نئی توانائی صنعت کی ترقی میں ناکامی کی پوری ذمہ داری خود امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ نئی توانائی کی گاڑیوں کو مثال کے طور پر لیجئے۔امریکہ میں متعلقہ صنعتیں بہت خراب ہیں. اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں صرف ایک لاکھ 81 ہزار چارجنگ پائلز ہیں، چین میں کتنے ہیں؟ 9.023 ملین. نومبر 2021 میں بائیڈن انتظامیہ نے 1.2 ٹریلین ڈالر کے انفراسٹرکچر ایکٹ پر دستخط کیے تھے، جس میں چارجنگ سہولیات کے لیے 7.5 ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے۔ 7.5 بلین امریکی ڈالر 54.1 بلین یوآن کے مساوی ہے۔
اگر اس رقم کو چین میں استعمال کیا جائے تو وہ 10.82 ملین چارجنگ پائلز اور 27,050 چارجنگ اسٹیشن تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم اس بل پر دستخط ہونے کے بعد گزشتہ دو تین سالوں میں امریکہ میں صرف 4 ریاستوں نے 7 چارجنگ اسٹیشن اور 38 چارجنگ پائلز بنائے ہیں، 12 ریاستوں نے اب تک صرف معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور 17 ریاستوں نے کوئی واحد منصوبہ بھی سامنے نہیں لایا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر چارجنگ پائلز کے حوالے سے پیٹنٹ درخواستوں میں چین کا حصہ 78.71 فیصد ہے جبکہ امریکہ کا حصہ صرف 4.62 فیصد ہے۔ تاہم، امریکہ میں نام نہاد "سیاسی درستگی” کے موجودہ ماحول میں، ایک بار جب کوئی چینی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے اور "امریکی عوام کو ان کی ملازمتوں سے محروم کر دیتا ہے”، تو سیاستدانوں کے ووٹ خطرے میں پڑ جائیں گے۔چارجنگ پائلز کے علاوہ بجلی کا نیٹ ورک بھی اہم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لائنوں میں سے 70 فیصد انتہائی بوسیدہ اور کام کرنے کی صحیح حالت میں نہیں ہیں۔ 2020 میں امریکہ میں بجلی کی اوسط بندش 8 گھنٹے سے زیادہ دیکھی گئی۔ ایسا بجلی کا نظام ایک ہی وقت میں ہزاروں نیو انرجی گاڑیوں کو چارج کرنے میں کیسے مدد دے سکتا ہے؟ اس کے علاوہ ،امریکہ کے تین بڑے علاقوں ، مشرق ، مغرب اور جنوب کے پاور گرڈز سبھی آزادانہ طور پر چل رہے ہیں ، وفاقی حکومت کی مربوط کوآرڈینیشن کا فقدان ہے ، اور کوئی الٹرا ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ایک موقع پر کسی امریکی انجینئر نےمشرقی اور مغربی پاور گرڈز کو یکجا کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا، جس سے نہ صرف امریکہ کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں نمایاں کمی لانے میں مدد ملے گی بلکہ امریکی ٹیکس دہندگان کو سالانہ 3.6 بلین ڈالر کی بچت بھی ہوگی۔ لیکن ایسے ملک اور عوام دوست منصوبے کو روک دیا گیا بلکہ متعلقہ انجینئرز کو بھی معطل کر دیا گیا۔وجہ صاف ہے کہ اگر پاور گرڈز کو منسلک کر دیا گیا تو ،امریکہ کے مشرقی حصے میں کوئلے کی بجلی مغرب میں پن بجلی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔
اس کے نتیجے میں ، امریکہ میں متعلقہ کوئلہ کمپنیوں نے ملازمت کے مواقع اور سماجی استحکام کا حوالہ دیتے ہوئے گرڈ کنکشن منصوبے کو فوری طور پر منجمد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اندرونی مخاصمت اور غیر موثر اور مہنگی پبلک کنسٹرکشن نے امریکہ میں نئی توانائی صنعت کی ترقی کو بہت سست کردیا ہے۔نہ صرف نئی توانائی کے شعبے میں بلکہ امریکی سائنس اور ٹیکنالوجی کی عالمی مسابقتی صورتحال میں بھی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں چین اور امریکہ کی جانب سے دائر پیٹنٹ درخواستوں کی تعداد بہت قریب رہی ہے۔ چینی ملکیت والے موثر پیٹنٹس کی تعداد امریکہ کو 2021 میں پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلے نمبر پر آ چکی ہے۔ تنظیم کی 2023 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2023 میں چین نے 69,610 درخواستیں جمع کروائیں۔ امریکہ 55,678 درخواستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی ریسرچ کی جانب سے حالیہ دنوں جاری کردہ "گلوبل کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی ٹریکر” رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی 64 سب سے اہم جدید ٹیکنالوجیز میں چین 53 میں پہلے نمبر پر ہے۔
اعلیٰ درجے کی مینوفیکچرنگ صنعت میں، چین تمام 13 شعبوں میں سرفہرست ہے۔ جدید انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے لحاظ سے چین 7 بنیادی شعبوں میں سے 6 میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ دفاع اور اسپیس، روبوٹکس اور نقل و حمل، مجموعی طور پر 7 ذیلی منصوبوں میں، چین 5 میں آگے ہے۔ سینسنگ ٹیکنالوجی اور نیویگیشن کے معاملے میں چین 9 ذیلی منصوبوں میں سے 7 میں سرفہرست ہے۔ اس بات سے آگاہی لازم ہے کہ آسٹریلوی وزارت دفاع اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی فنڈنگ سے بننے والا یہ آسٹریلوی تھنک ٹینک کبھی بھی چین سے دوستانہ نہیں رہا۔حالیہ برسوں میں امریکہ نے چپس اینڈ سائنس ایکٹ اور افراط زر میں کمی کے ایکٹ کے ذریعے سینکڑوں ارب ڈالر کی براہ راست اور بالواسطہ سبسڈی فراہم کی ہے۔
جو مارکیٹ کے وسائل کی تقسیم اور بین الاقوامی سپلائی چینز کے استحکام میں مداخلت کرتی ہے، لیکن اس نے امریکہ میں متعلقہ صنعتوں کی مارکیٹ مسابقت کو مؤثر طریقے سے بہتر نہیں بنایا ہے۔ مسابقت سبسڈی کے ذریعے قائم نہیں کی جا سکتی۔ مارکیٹ کو مسخ کرنے اور دوسرے ممالک کی ترقی کو روکنے جیسے غلط طریقہ کار سے خود امریکہ کے مسائل حل نہیں ہوں گے، سوائے اس کے کہ امریکہ کی غیر موثر سبز تبدیلی اور روایتی صنعتوں کی بتدریج پسماندگی کی شرمناک حقیقت کو عارضی طور پر چھپایا جائے۔اپنی بیماری کا علاج خود تلاش کرنا ہے۔ دوسروں کو اپنی بیماری کے لیے مورد الزام ٹھہرانا منطق سے عاری بات ہے. "اندرونی بیماریوں کا بیرونی علاج” کے کوئی اچھے نتائج نہیں برآمد ہوتے ،ما سوائے مرض کے مزید بڑھنے کے۔ یہ عام فہم بات ہے۔