پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہی جیسے مختلف بحرانوں کا شکار چلا آ رہا ہے اور اسکی اصل وجہ ” اقتدار ” ہے جیسا بھی ملے جس حالت میں ملے ” کوئی ” دوسرا اقتدار کی راہ ہموار کرے سب چلے گا بس اقتدار چاہئے اور اقتدار کا نشہ اس قدر دماغوں کی ہر نس نس میں گھس چکا ہے کہ اب دماغی بیماری کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب یہ اقتدار چند سالوں کے بعد ہی اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی گر پڑتے ہیں اور کوئی دوسرا اس اقتدار کی مسند پر براجمان ہوجاتا ہے۔
پھر بھی ان عقل کے اندھوں کو سمجھ نہیں آتی کہ جس پاور کی سیاست آپ کر رہے ہیں اس میں دور دور تک ملک و قوم کی بہتری ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ہر نئی حکومت اپنے مخالفین کے خلاف ان گنت مقدمات تیار کرتی ہے ریفرنس دائر کرتی ہے الزام لگاتی ہے اور یوں پولیس،نیب، ایف آئی اے اور ناجانے کونسے کونسے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں کاروائیاں شروع ہوجاتی ہیں اور بات نچلی عدالتوں سے ہوتی ہوئی ہائیکورٹس اور پھر سپریم کورٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
جہاں چند ماہ بعد یا کیسز پر فیصلے آنا شروع ہوجاتے ہیں اور مخالفین جیل کی سلاخوں سے باہر دکھائی دینے لگتے ہیں اور جس کی حکومت ہوتی ہے وہ عدالتی نظام پر انگلی اٹھاتا ہے اور واویلا کرنے کے سوا اسکے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا اور یہی سب کچھ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہوتا چلا جا رہا ہے جسکی وجہ سے ادارے اپنا اصل کام بھول کر سیاست دانوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
ابھی چند روز قبل سابق وزیر داخلہ اور موجودہ مشیر وزیراعظم رانا ثناءاللہ ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ” ہماری پوری کوشش ہوگی کہ عمران خان جیل میں ہی رہیں اگر وہ باہر آتے ہیں تو اتنا بڑا خطرہ ثابت نہیں ہونگے تاہم جس طرح انہوں نے ہمارے خلاف مقدمات بنائے ہم بھی اسی طرح مقدمات بنا کر انہیں اندر رکھیں گے ” جس ملک کی سیاست کا معیار یہ ہو وہاں ادارے ہی نہیں قومیں بھی تباہ ہو جایا کرتی ہیں اور یہی سب ہماری تمام تر خرابی اور بربادی کی جڑ ہے قوم جن کو ووٹ دیتی ہے وہ قوم اور ملک کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔