عاشق رسول شمشیر اسلام غازی علم الدین شہید کا 95 واں عرس مبارک میانی صاحب قبرستان میں 30۔31 اکتوبر 2024 کو نہایت جوش و خروش اور ولولہ انگیز ماحول میں منعقد ہوا۔ دو روزہ تقریبات میں لاکھوں عاشقان رسول نے شرکت فرمائی۔یوں لگتا تھا کہ سارا پنجاب و پاکستان غازی کے مزار کی جانب رواں دواں ہے۔ دو روزہ تقریبات میں عام لوگوں سے لے کر علماء و مشائخ، محدثین، پیران عظام، محبت رسول دل میں رکھنے والا ہر ہر شخص حاضری دیتا دکھائی دے رہا تھا۔
نعت رسول،قوالی اور علماء کے خطاب سے پورا علاقہ جگمگا رہا تھا، دوروز تک 24 گھنٹے لنگر تقسیم ہو رہا تھا ، عوام خود حلیم نان، ز ردا، بریانی کی دیگیں عوام میں تقسیم کر رہے تھے۔ لاھور کے ایک معروف بزرگ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہر سال کی طرح بینڈ باجوں کے ساتھ غازی علم الدین شہید کے مزار شریف پر سلامی کے لئے تشریف لائے ، یہ منظر بھی دیدنی تھا- یہ لاھور کا واقعہ ھے کہ ایک کھتری راج پال نامی شخص نے ایک کتاب رنگیلا رسول لکھی جس سے پورے پاکستان و ھند میں مظاہرے و احتجاج شروع ہوگئے ۔
مسلمانوں میں سخت غصہ و اضطراب پیدا ہوا۔ مسلمانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس گستاخ رسول راج پال کو گرفتار کیا جائے اور کتاب کو ضبط کیا جائے۔حکومت نے اس نا خلف کو گرفتار کر لیا ۔ اسکو 6 ماہ کی سزا سنائی گئی مگر ھائی کورٹ نے اس ملعون کو بر ی کر دیا جس سے مسلمانوں میں سخت اشتعال پھیل گیا۔مسلمانوں کیدل آزاری ھوئی تھی وہ سراپا احتجاج تھے کہ ایک 21 سالہ نوجوان علم الدین نے اس گستاخ رسول کو قتل کر دیا۔
انگریز حکومت نے علم الدین کو گرفتار کر لیا۔ آپ پر مقدمہ چلا ۔آپ کی جانب سے علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح پیش ھوئے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے علم الدین شہید کو کچھ اشارے دئیے مگر شہید نے کھلے عام اقبال جرم کر لیا۔جیل میں مسلمانوں کی بڑی تعداد غازی کی زیارت و دیدار کے لئے حاضر ہوتی۔لاھور میں غازی علم الدین ڈیفنس کمیٹی علامہ محمد اقبال کی سربراہی میں بنی۔مگر حکومت نے اس مجاہد کو سزائے موت کا حکم دیا۔مسلمان اس مجاہد کی زیارت کے لئے میانوالی جیل میں حاضری دیتے۔
بڑے بڑے علماء و مشائخ اور امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ غازی صاحب کو ملنے جاتے اور غازی کا چہرہ تکتے رہتے۔سید عطاء اللہ شاہ صاحب غازی علم الدین پر فخر کرنے والوں میں شامل تھے۔
آخر وہ دن آگیا یعنی 30 اکتوبر 1928 جب حکومت نے غازی علم الدین شہید کو پھانسی دے کر خاموشی سے میانوالی میں دفن کر دیا۔مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا۔علامہ محمد اقبال کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنی۔جس نے وائسرائے ھند سے مذاکرات کئے اور شہید کا جسد خاکی کو لاھور لایا گیا۔
لاھور کی اس زمانے کی تاریخ سب بڑا جنازہ ھوا جس میں چھ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔علامہ اقبال نے اپنے ھاتھوں شہید کو قبر میں اتارا۔لاکھوں عاشقان رسول کی موجودگی میں کہا کہ آج ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔غازی علم الدین شہید کی جیل میں حضرت موسی ،حضرت علی مرتضی اور نبئ کریم کی زیارت و ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔