یوم البدر

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

17رمضان المبارک 2 ہجری (مارچ 624ء) کو 313 (مہاجرین و انصار کے)افراد 2 گھوڑے،70 اونٹ اور کچھ نیزے، بھالے، چند زرہیں اور تلواروں سے یورپ اور فارس کے تجارتی سنگم (مکہ اور حلیف ) کے اشرافیہ کی 1000 جنگجو، 100 گھوڑوں، 700 اونٹ اور بے پناہ قوت و طاقت سے ٹکراکر اسے پاش پاش اور پارہ پارہ کردینے والے پیغمبر حق نے 12 سال کی عمر سے فن حرب کا آغاز کرکے، حجارہ من سجیل ( “minimum & smart” deterrence with Digitized & codified devices) کا قرینہ رکھتے ہوئے، 313 (بدر) سے آغاز اور 30،000(تبوک) کے ساتھ مختصر (10سال 622 سے لیکر 632 تک) عرصہ میں عالمی طاقتوں کو ٹکر دینے والی قوت بناتے ہوئےآخر تک (چراغ جلانے کو تیل نہیں مگر 9 تلواروں کے ساتھ) برسر پیکار رہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبروں میں وہ واحد پیغمبر ہیں جو میدان کارزار میں خود بنفس نفیس دین الحق المتین المبین کی سربلندی کے لئے عزم و استقلال کے ساتھ میدان میں اترے جسکی مثال نہیں۔

ہجرت مدینہ کے تھوڑے عرصے بعد ہی ایسا میدان سجا کہ قام قیام قیامت اور ابدالاباد تک اسکی نظیر ممکن نہیں۔
آپ ﷺنے اپنی زندگی میں کبھی میدان میں کھڑے ہونے کے بعد میدان جنگ نہیں چھوڑا۔ جنگوں کے بعد جشن کی بجائے اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا۔ آپ نے کبھی جنگوں کی خواہش نہیں۔ اور مقصد وحید رضائے الہی کا حصول رکھا۔

ہجرت کے بعد مختصر(سات ماہ) قیام کے بعد سلطنت مدینہ کی مضبوطی اور احقاق حق کی خاطر استعماری و استحصالی طاقتوں کے خلاف احقاق حق اور ابطال باطل اور غلبہ اسلام کے لیے پہلا قدم اٹھایا۔ جب مدینہ کے اطراف سرحدی مضبوط دفاع کے لئے تجارتی شاہراہ پہ گمنڈ اور سر کشی کا طرہ چڑھائے ہوؤں کا قافلہ جو کہ ابوجہل کی قیادت میں لوٹنے کو تھا، اس شاہراہ پر اپنی عملی طاقت کے اظہار اور غلبہ کے لیے حمزہ بن عبدالمطلب کو بھیجا۔ اور پھر کچھ عرصے بعد اسی شاہراہ پر معاشی شرائط کے نفاذ کے لیے جارحانہ دفاع کے لیے عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کو بھیجا۔ اور تیسرا حضرت سعد بن ابی وقاص جو اس وقت ابو سفیان کا قافلہ آ رہا تھا اس پر بھیجا جس پر حضرت سعد بن ابی وقاص نے بے تحاشہ تیروں کی برسات کر دی اور اسلام کی طرف سے چلائے جانے والے پہلے تیر کا لقب بھی حاصل کیا۔ اعلا کلمہ حق کے باب میں اسے بدر اولی کہتے ہیں۔

اس تجارتی اثر و نفوذ کے رعب و دبدبہ میں ابو سفیان نے مکہ والوں کو مدد کے لیے پکارا تو مکہ کے تمام سردار میدان بدر میں اپنے تمام لاؤ لشکر، طاقت و طرہ، سطوت و حشمت،جاہ و جلال، تکبر و گمنڈ، رعب و دبدہ، طنطنہ و ہمہمہ کے ساتھ روسآ و اشرافیہ آن کھڑے ہوئے۔ آپ بھی مدینہ سے نکلے ہوئے تھے کہ اللہ کا فرمان آگیا کہ دو لشکروں میں سے ایک لشکرسے آپ ﷺ کا سامنا ہوگا۔ اور اللہ کے حکم پہ آپ ﷺ میدان بدر کی طرف چل پڑے کہ یہ کوئی باقاعدہ جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اس لئے اسلحہ و ساز و سامان گھوڑے تیار کر کر نہیں لائے تھے صرف اور صرف اپنے مدینہ کی ریاست کے غلبے اور استحکام کی مضبوطی کے لیے باہر ائے تھے لیکن حکم ہو گیا تو آپ اسی وقت ایک ماہر سپاہ سالار، ہر دم تیار رہنے والے کمانڈر کے روپ میں پوری دلیری کے ساتھ میدان کارزار میں اپنے جانثاروں کے ساتھ اللہ سے دعا کرکے سربکف کھڑے ہوگئے۔ میدان میں پہنچتے ہی آپ نے دشمن کے لشکر کی تعداد، رسد، قوت، کمک، پانی، رکاوٹیں، میدان جنگ، وقت سمت، موسم، ہوا، ہوا کا رخ ،زمین کی ساخت، سورج کا زاویہ، میدان کی مٹی، بارش، اور اسکے پانی کا بہاو، مقام جنگ، آلات حرب، اور خوراک اور سپاہ کی قوت کا عمیق جائزہ لینے کے بعد ایسے فیصلہ کن اقدامات کئے جو فن حرب کی تاریخ میں بے مثال ٹھرے کہ عملی طور پہ کہ میدان جنگ اپنی گرفت میں، وقت جنگ اپ کی گرفت میں اور مقام جنگ گرفت میں، جہاں سے دشمن کی ہر حرکت پہ نظر رکھ بروقت فیصلہ کیا جا سکے۔ اور اپنی صلاحیت کا۔کیسے استعمال کرنا ہے۔ اپنے جانثاروں کو ذمہ داریاں بہترین انداز میں نظم کے ساتھ ترتیب میں عطا فرمائیں۔ ساتھ ساتھ ممکنہ وسائل پہ قبضہ کیا تاکہ دشمن کہ قوت کو کم و کمزور رکھا جائے، خفیہ راستوں کی نگرانی، معلومات و مشاہدہ، محفوظ کمک و رسد کی ترتیب۔ طبی اور نیم طبی ماہرین کو ترتیب دیا۔ لشکر کو دائیں بائیں اگے پیچھے اور محفوظ کمک کو نظم دیا۔اخلاقی تربیت کے ساتھ اسلحہ اور جنگی سامان کو مہارت سے یونٹس میں ترتیب دے کر مراکز بنائے، رخ آفتاب کے مخالف سمت کی تعین دیتے ہوئے رضائے الہی کو نصب العین بنا کر ہر للکار کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔کائنات ہست و بود میں محبت کا ایسا اٹوٹ منظر کبھی نہیں بنا کہ حالت صیام میں آقا کریم کے دیوانے اپنے خونی رشتہ کے خلاف شمشیر زن ہوئے۔ اس کیفیت کو اللہ نے یوم الفرقان یوم الجمان کہا اور ایسی بشارت دی( جس نے اس جنگ میں شرکت کی ان کے اگلے بھی اور ان کے پچھلے بھی تمام گناہ معاف فرمائے) جو کبھی کسی کو نہ ملی۔ تاریخ اسلام میں بدر والوں کی اولیت وافضلیت تا قام قیام قیامت اور بعد از قیامت قائم رہے گی۔

17 رمضان المبارک کے روز بدر کے مقام پہ خونی رشتوں کی نفی ہو گئی۔ صرف ایک اللہ کے لیے میدان کارزار میں کھڑے اصحاب رسول نے رؤسا مکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے جب آقا سےاجازت طلب کی تھی وہ وعدہ ایفا کرتے ہوئے کہ ہم اپ کے پسینے سے پہلے اپنا خون بہا دیں گے، ہم پہاڑوں سے ٹکرا جائیں گے، ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس پہ مکہ کے سرداروں نے انکار کر دیا کہ ہمارے مقابلے/ٹکر کے لوگ لائیں ناکہ انصار کو۔ آقا علیہ ﷺنے پھر سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کو، علی ابن ابی طالب کو، ابو عبید حارث کو اگے کیا تو سرداران مکہ کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ (رئیس دارالندوہ) سامنے آئے تو چند لمحوں میں صحرا بدن کردیئے گئے۔ میدان کا نقشہ ہی بدل گیا۔ سرداران مکہ پیوند خاک ہوئے۔ روسآ مکہ کا سارا غرور زینت خاک ٹھرا۔ احقاق حق اور ابطال باطل میں حد فاصل 17 رمضان المبارک۔ یوم البدر، یوم الفرقان ہے۔ جہاں انکو جنگ پہ ابھارنے والا شیطان سراقہ بن جثم کی شکل بھاگ گھڑا ہوا۔ تعجبانہ سوال پہ قریش کو جواب دیتا ہے کہ میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے ۔ قریش بھی اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہویے۔ 70 قیدی۔ 70 ہی کے قریب میدان بدر میں صحرا ہوئے۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں قطار اندر قطار اب بھی

خون نے محمد عربی کی غلامی اور رضائے الہی کی خاطر رشتوں کی وہ نفی کہ حضرت ابو عبدالرحمن الجراح ایک کان سے پکڑ کر سر اٹھایا اور عرض کی آقا یہ میرا باپ ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اپنے ماموں( ہشام ) کو نذرتیغ کرچکے۔ حضرت ابوبکر صدیق کے بیٹے نے کہا ابا جان میدان بدر میں دو مرتبہ میری تلوار کے نیچے ائے مگر میں نے چھوڑ دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے کہا بیٹے تم ایک مرتبہ میری تلوار کے نیچے آجاتے تو میں قسم خدا کی کہ ایک لمحے کے لیے دیر نہ کرتا۔ میدان بدر میں خونی رشتوں کی یہ نفی اعلا کلمہ اللہ کا کا عظیم عالمی کامیابی کا وہ پھیرارا لے کر آئی۔ آقا ﷺکی اس عظیم قیادت نے چند برسوں میں خطہ عرب کی کیفیت بدل دی۔ خطہ عرب عالمی تہذیب کا گہوارہ بن گیا۔ جو آپ نے جنگی اصول عطا فرمائے کہ اسلام کی بابت جبر نہیں ہے۔ حتی کہ حالت جنگ میں بھی عورت کو کچھ نہیں کہنا، بچوں کو نہیں مارنا، بوڑھوں کو نہیں مارنا، جو ہتھیار ڈال دیں اسے نہیں مارنا، جو دروازہ بند کر لے اسے نہیں مارنا، جو ہاتھ اٹھادے اسے نہیں مارنا کمزور کو نہیں مارنا، جو بھاگ جائے اسے کچھ نہیں کہنا، بیمار کو کچھ نہیں کہنا، مذہبی احبار اور رہبان کو کچھ نہیں کہنا، کسی بھی معبد کو نہیں گرانا، خیانت نہیں کرنی، دھوکہ نہیں دینا، مزدور کو کچھ نہیں کہنا سبزہ برباد نہیں کرنا، درخت نہیں کاٹنے، پھل اور پھولدار درختوں کو نہیں کاٹنا، احسان کرنا ہے مثلہ نہیں کرنا، معبد کو نہیں چھیڑنا، مکانات کو تباہ نہیں کرنا، مسخ نہیں کرنا، یہ اسلام کا روشن رخ ہے کہ جس نے کایا ہی پلٹ دی۔ غلبہ اور استحکام عمارت اسلامی اخلاق کریمانہ اور بدر کی جرآت سے منعکس و مستعار ہے۔

سالار اعظم نے 10(622-632) سال کی مختصر ترین میں مدت میں 313 سپوتوں سے شروع کیا گیا جنگی معرکہ ارائیوں کا سفر 30،000 ہزار کے ساتھ 83 جنگوں بشمول 27 میں اپنی شرکت کے، صرف چند سو (259 مسلمان شہدا اور 759 دشمن کی اموات) سے 3 لاکھ مربع کلومیٹر(مکہ، مدینہ، طائف، نجد یمامہ، صحرا عرب، حجاز، شمالی عراق مغربی اردن و فلسطین) پر اپنا جھنڈا لہرا کر عالمی طاقتوں کے دروازوں پہ اللہ اکبر کے نعرہ سے دستک دے دی۔

اس دراں جنگی حکمت و مہارت کے وہ زاویہ، اصول دئیے جو ابد الاباد تک منشور حرب ہیں کہ جن پہ آج اکسویں صدی کا جنگی ماہر متحیر ہے اور آپ کی جنگی فہم و فراست و شجاعت و مہارت کو سلام پیش کرتا ہے کہ کیسے آپ نے العلم الاسلحی سے لیس ہوکر نہ کبھی اپنی قلت تعداد سے گھبرائے اور نہ کبھی دشمن کی کثرت سے مرعوب ہوئے۔ نہ کبھی دشمن کے وسائل کی فراوانی پہ توجہ دی بلکہ جذبہ جہاد اور اللہ پہ اعتماد کرتے ہوئے رضائے الہی کے لئے پوری جرات و دلیری سے ٹکرا گئے۔ کہیں آپ شہر سے باہر دور دشمن کا سامنا کرتے ہیں کہیں باغات اور پہاڑ و گھاٹی کے تناظر میں میدان جنگ ترتیب دیتے نظر آتے ہیں۔ کہیں خندق، کہیں رعب و دبدبہ، کہیں معاہدے، کہیں جنگی حلیف بنانا، کہیں نفسیاتی رعب، کہیں منظم جاسوسی نظام، کہیں کیموفلاج، کہیں جدید ہتھیار کا استعمال، کہیں سفارت کاری، کہیں جنگی سفارتکاری، کہیں گشت، کہیں چھاپہ مار کاروائی، کہیں کمانڈ و کنڑول۔ کہیں خفیہ کوڈز کا استعمال، کہیں عفو و درگزری، کہیں معاشی کی واقفیت اور استعمال اس کے ساتھ کمک کی کاٹ، ساتھ استقامت اور صلح اور عرف وہ درگزری کے ساتھ کسی جگہ چھاپہ مار کاروائیاں کی کسی جگہ معاشی کمک اور رسد کاٹ کر، کہیں سرعت نقل و حرکت سے اور کہیں خالص جذبہ جہاد اور دلیری سے دشمن کو ایسے زیر کیا کہ خطہ عرب کی حالت ہی بدل گئی۔ ہر سو علم۔ اخلاق اور محبت نے بسیرا کر لیا اور آنے والی کئی صدیوں کی امامت کا درجہ حاصل کر لیا۔

یوم البدر
Comments (0)
Add Comment