حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اس کشیدگی کے دوران ثالثی کے کردار میں سامنے آئے، نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کروایا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان نے ان کے بیان کا خیرمقدم کیا، کیونکہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے عالمی ثالثی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔
دوسری جانب، بھارت اس موقف کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر اس کا "اٹوٹ انگ” ہے اور یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے، اس لیے کسی بیرونی ثالثی یا بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ بھارت کی یہ کہنا کہ صرف اس موضوع پر بات ہوسکتی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کب بھارت کے حوالے کیے جائیں گے ایک غیر حقیقت پسندانہ اور جابرانہ رویہ ہے۔
پاکستان کا اصولی اور انصاف پر مبنی مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں، اور کشمیری عوام کی رائے کی روشنی میں حل ہونا چاہیے۔ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ یہی وعدہ اقوام متحدہ نے کیا تھا، اور خود بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیری عوام سے ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کیا تھا۔
تقریباً پون صدی گزر چکی ہے، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کشمیری عوام مسلسل جبر، تشدد، جبری پابندیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ دوسری طرف، پاکستان اور بھارت کے عوام غربت، بے روزگاری، اور بنیادی سہولتوں کی کمی سے دوچار ہیں، مگر دونوں ممالک اپنے دفاعی بجٹ پر اربوں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو یہ وسائل تعلیم، صحت اور عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔
دنیا ایک اور جنگ، بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان، کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ صدر ٹرمپ نے خود اعتراف کیا کہ اگر فوری مداخلت نہ کی جاتی تو یہ کشیدگی ایٹمی تصادم میں بدل سکتی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اس کشیدگی کے دوران ثالثی کے کردار میں سامنے آئے، نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کروایا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان نے ان کے بیان کا خیرمقدم کیا، کیونکہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے عالمی ثالثی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔
بھارت کی جانب سے اس موقف کی ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر اس کا "اٹوٹ انگ” ہے، لہٰذا یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم، یہ دعویٰ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف ہے۔ 1948 اور 1949 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے کیا جائے گا۔
1957 میں بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کو اپنے آئین میں شامل کرلیا، لیکن اقوام متحدہ نے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر مسئلہ کشمیر ایک "حل طلب تنازعہ” کے طور پر درج ہے۔
کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل جبر، ظلم، کرفیو، جبری گمشدگیوں، اور ماورائے عدالت قتل جیسے سنگین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ بارہا بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ خاص طور پر 5 اگست 2019 کے بعد جب بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت چھینی، اس کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔
حالیہ ماہ مئی میں پاک بھارت کشیدگی اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج سے بھارتی قیادت کی آنکھیں کھل جانی چاہئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور عوام اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھیں۔ یہ مسئلہ کسی جنگ یا فتح و شکست سے نہیں بلکہ کشمیری عوام کی رضامندی اور دونوں ممالک کے باہمی اتفاق سے حل ہوگا۔ نہ بھارت فوجی طاقت سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرسکتا ہے، نہ پاکستان جنگ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر حاصل کرسکتا ہے، اور نہ ہی کشمیری عوام اکیلے اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ تقسیم کشمیر اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا حل ہے۔ تو پھر آخر اس کا حل کیا ہے؟
اس مسئلہ کا ایک ممکنہ، پُرامن اور قابلِ عمل حل یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو ایک محدود مدت کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے۔ اس دوران ریاست کے دونوں حصوں کے عوام پر آنے جانے کی پابندیاں ختم ہوں، پاکستان اور بھارت مشترکہ انتظامی کردار ادا کریں، اور اقوام متحدہ نگرانی کرے۔ دس سال کے بعد آزادانہ اور شفاف ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری عوام سے فیصلہ کروایا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں — بھارت کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ شمولیت یا مکمل آزادی۔
یہ کوئی نئی تجویز نہیں۔ اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل نے دنیا کے کئی علاقوں میں ایسے مسائل پُرامن طریقے سے حل کروائے ہیں۔ مشرقی تیمور، نمیبیا، اور پالاؤ جیسے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے آزادی کے لیے اقوام متحدہ نے 1999 میں ریفرنڈم کروایا۔ عوام کی اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا، اور 2002 میں مشرقی تیمور ایک آزاد ملک بن گیا۔
جنوبی سوڈان میں طویل خانہ جنگی کے بعد، اقوام متحدہ کی نگرانی میں 2011 میں ریفرنڈم ہوا، اور جنوبی سوڈان ایک نئی ریاست کے طور پر قائم ہوا۔
نمیبیا کے جنوبی افریقہ کے قبضے سے آزادی کے لیے اقوام متحدہ نے لمبی جدوجہد کے بعد 1990 میں خودمختاری دلائی۔ بحرالکاہل میں واقع پالاؤ یہ علاقہ اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کے تحت تھا، اور 1994ء میں امریکہ سے معاہدے کے بعد ایک آزاد ریاست بنا۔
ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری سنجیدگی سے کردار ادا کرے تو پرامن اور قابلِ قبول حل ممکن ہے۔ کشمیر جیسے حساس اور تاریخی مسئلے کے حل کے لیے بھی ایسا ہی ایک روڈمیپ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس غرض سے ریاست جموں و کشمیر کو ایک عبوری مدت کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دیا جائے۔ اس دوران لائن آف کنٹرول کھول دی جائے، دونوں اطراف کے کشمیری آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں، بنیادی حقوق بحال ہوں، اور بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں فضا کو شفاف اور منصفانہ بنایا جائے۔ دس سال کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم ہو، جس میں کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
میری دانست میں یہی وہ قابلِ عمل راستہ ہے جس سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔
یہ تجویز نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اور دائمی امن کی ضامن ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر، یہ تنازعہ کبھی جنگ، کبھی سرحدی جھڑپوں، اور کبھی عالمی طاقتوں کی مداخلت کے ذریعے پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنا رہے گا۔ جیسے پچھلے اٹھہتر سال کشیدگی، جنگوں اور انسانی المیوں میں گزرے، ویسے ہی آئندہ بھی گزرتے رہیں گے۔ برصغیر کے عوام ایک مستقل جنگی فضا میں جیتے رہیں گے اور ترقی، خوشحالی اور امن صرف خواب بن کر رہ جائیں گے۔