ایک بجے میں اوربرادرم رضوان احسن گوندل اپنے دوست چوہدری محمدامجد آف تھلہ کلاں کی دعوت پر ہال جی ٹی روڈ کریالہ پہنچے جہاں قہوہ کے بعد کھاریاں اور سرائے عالمگیر کے درمیان ’’کرینڈ سٹی ہا ئو سنگ سوسائٹی‘‘ کا مختصر چکر لگایا اورسپین میں مقیم دوست چوہدری اصغر کے ڈیڑھ کنال پر مشتمل اسپانش نقشہ پر بننے والے زیر تعمیرگھر کو دیکھتے ہوئے قلعہ روہتاس کی طرف چل دئیے ،سرائے عالمگیر سےپونے گھنٹے کی مسافت پر جی ٹی روڈ روہتاس موڑ سے تقریب آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع جہلم کے شمال میں واقع تاریخی قلعہ روہتاس پہنچے ۔
قلعہ کے راستے میں مال دیو ، موہال اور ریحانہ دیہاتوں سے گزرتے ہوئےاونچے نیچے راستےاور سبزہ بہت دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیے گئے اس قلعہ کو افغان قبیلے سے تعلق رکھنے والے بادشاہ شیر شاہ سوری نے 1541میں مغلوں کی دوبارہ آمد روکنے کےلئے تعمیرکیاتھا،قلعہ کی ایک طرف نالہ گھان دوسری طرف گہری کھائیاں اور جنگل ہے،روہتاس پاکستان کا دوسرا بڑا قلعہ ہے جسکی جنگی طرز تعمیر اور بارہ دروازےاپنی انوکھی داستانیں سناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک جی ٹی روڈ کے نزدیک کثیر لاگت سے تعمیر ہونیوالے اس قلعے میں بیک وقت تین لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا۔
بڑے پتھروں سے تعمیر ہونیوالےتین سو ایکٹر پر محیط اس عظم الشان قلعہ میں خواص خان دروازہ ، صدر دروازہ ، شاہی مسجد ،شاہی محلات،لنگر خوبی دروازہ،مان سنگھ محل،رانی محل،لنگر خوانی دروازہ،کا بلی دروازہ ،مزارات مقدسہ ،مندر،مقبرے ،شاہی تالاب ،شیشی دروازہ ،گھٹیالی دروازہ،پھانسی گھاٹ ،سوہل دروازہ ، تین باولیاں اور تین پوشیدہ راستے بھی ہیں جن میں ہنگامی صورتحال میں ایمبر جنسی دروازہ اور بادشاہ کے خفیہ عملہ کے دروازے بھی شامل ہیں ۔
ان خفیہ دروازوں کی مدد سے با آسانی قلعے کے ایک حصے سے دوسری حصے تک جایا جا سکتا ہے۔قلعہ روہتاس کو دیکھنے روزانہ سیاحوں کی کثیر تعداد ،یونیورسٹی اور سکول کالجزکے گروپ آتے ہیں ،ہمارے میزبان چوہدری محمد امجد ہم سے گفتگو میں اس تاریخی ورثہ کی زبوحالی دیکھ کےخون کے آنسو بہاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہمارے ملک میں سیاحت کا شعبہ غیر فعال ہے قلعہ روہتاس کی طرح پاکستان کے بہت سے تاریخی مقامات ضائع ہو رہے ہیں حکام اورمحکمہ آثار قدیمہ قلعہ روہتاس سمیت دیگر تاریخی مقامات میں سیاحوں کی سہولیات اورمرمت کےلئے کچھ بھی نہیں کر رہے۔
قلعہ روہتاس کےبہت سے تاریخی حصے ضائع ہو چکے ہیں ،قلعہ میں مقیم گاوں کی سڑکیں اور قلعہ کے بہت سے حصے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ،یہاں سیاحوں کے کھانے پینے اور بیٹھنے کےلئے بھی مناسب انتظامات غیر مناسب ہیں۔ جبکہ یورپ امریکہ وغیرہ میں ناصرف تاریخی ورثہ کی حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ سیاحوں کوبہترین سہولیات دے کثیر ذرمبادلہ کمایا جاتا ہے شام پانچ بجے کے قریب ہم عظیم الشان قلعہ روہتاس سےواپس دوبارہ سرائے عالمگیر پہنچے جہاں راجہ حبیب سرور،چوہدری محمد اصغر اورمحمد منشاء کھانے پرہمارےمنتظر تھے۔