نیویارک(طاہر محمود چوہدری) بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ میں پناہ حاصل کرنے والے تارکین وطن کے لیے اسائلم کے نظام کو تبدیل کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے دی ہے، جس کا مقصد امیگریشن عدالتوں کے بوجھ کو کم کرنا ہے، جسے کچھ ماہرین ایک چوتھائی صدی میں اس عمل میں سب سے بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق نئی پالیسی کے تحت، جسے انتظامیہ نے جمعرات کو ایک عبوری حتمی اصول کے طور پر جاری کیا ہے، کے مطابق پناہ کے متلاشی تارکین وطن کے اپنے دعووں میں سے کچھ کو امیگریشن ججوں کی بجائے اسائلم افسران سن کر ان کا جائزہ لیں گے۔
انتظامیہ کے حکام نے کہا کہ اس پورے عمل کے لیے ہدف چھ ماہ ہے، جبکہ موجودہ وقت اوسطاً پانچ سال یا اس سے زائد کے لگ بھگ ہے. بہت سے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو پیرول کی حیثیت سے رہا کرنے کے منصوبے ہیں، جب وہ اس عمل سے گزرتے ہیں، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ عمل اور بھی زیادہ اسائلم کے متلاشی تارکین وطن کو سرحدوں کی طرف راغب کرنے کا باعث بنے گا۔
نیویارک ٹائمز کے ساتھ شیئر کردہ اندرونی اعداد و شمار کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں، سرحدی اہلکار ایک دن میں تیرہ ہزار سے زائد غیر قانونی مہاجرین کو پکڑ رہے ہیں۔
اسائلم امیگریشن کے بیک لاگ کی وجہ سے رواں سال صرف فروری کے آخر تک 6 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ کیسیز امیگریشن عدالتوں میں زیر التوا تھے جبکہ مجموعی طور پر یو ایس امیگریشن کے پاس 17 لاکھ اسائلم کے کیسیز زیرِ التواء ہیں. جن میں سے سب سے زیادہ کیسیز امریکی ریاست ٹیکساس، کیلیفورنیا، فلوریڈا، نیو یارک اور نیو جرسی میں فائل کیے گئے ہیں، ان پانچ ریاستوں میں زیرِ التواء کلیمز کی تعداد تقریباً دس لاکھ کے قریب بنتی ہے۔
اس منصوبے کو مکمل طور پر فعال کرنے کے لیے، حکومت کو ہر سال تقریباً 75 ہزار اسائلم کیسوں کو نمٹانے کے لیے سینکڑوں نئے اسائلم افسران کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔