یہ سوال اپنی معنویت کے لحاظ سے ایک وسیع جواب کا طالب ھے لیکن اس سے قبل ھم کو سوال یہ کرنا چاھئے کہ ھم مغرب کو کیوں جاننا چاھتے ہیں؟
بلاشبہ ماضی قریب سے لیکر آج تک مغرب دنیا کی قیادت کے منصب پر سرفراز ھے یہ تو ھوا کہ یہ برطانیہ سے امریکہ منتقل ھوگیا لیکن قیادت کا یہ تاج اب بھی مغرب کے سر ھے۔ مغرب کو جاننے کا اصل مقصد ان کی قیادت کے منصب پر سرفراز ھونے کا راز تلاش کرنا ھے۔ اگر میں یہ کہوں کہ مجھ سے بہتر مغرب کو کوئی نہیں جانتا تو اس سے بڑا جھوٹ کوئی ھو نہیں سکتا۔ کیونکہ میں ایک طالب علم بھی ھوں اور استاد بھی تو اس ضمن میں عرض یہ ھے کہ کوئی بھی کسی بھی شعبے کا ماھر اپنے آپ کو عقل کل تسلیم کرکے اس علم یا میدان میں تحقیق کے دروازے کو یہ کہہ کر بند نہیں کرسکتا کیونکہ یہ جو علم ھے اس کے بعد کچھ نہیں لہذا اب اس پر کوئی علمی جستجو یا تحقیق نہیں ھوگی۔ اگر کوئی ایسا دعویٰ بھی کرے تو لوگ اسے خود جاہل کہیں گے۔
مغرب کا جو تجزیہ میں پیش کرونگا ضروری نہیں کہ سب کو اس سے اتفاق ھو یا یہی کل تجزیہ ھو اور اس کے بعد مزید تجزیوں اور علمی جستجو کی ضرورت باقی نہ رھے۔ مغرب کی اصل کامیابی اس کا نظام ھے۔ مغرب نے اپنے نظام کو نہ صرف درست طور پر پورے ملک میں نافذ کیا بلکہ اس کو موثر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً اس میں اصطلاحات کی جاتی ہیں۔ اس نظام میں نظام عدل و نظام حکومت اس سے بنیادی اجزاء ہیں۔ بحیثیت مجموعی چند باتوں کو چھوڑ کر مغرب کا نظام عدل مثالی ھے لیکن یہ سہولت ان کے صرف اپنے شہریوں تک محدود ھے عالمی سیاست کا اس سے لینا دینا نہیں ھے۔ آپ کسی رنگ، نسل، زبان، مذھب سے تعلق رکھتے ہو ں آپ چا ہے وزیراعظم ہو ں یا عام شہری قانون سب کے لیے یکساں ھے اور عدالتیں نظام انصاف کو قائم کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کرتی ہیں۔ یہ سہولت آن لائن سے لیکر از خود درخواست دائر کرنے تک سب کو یکساں طور پر حاصل ھے۔ ان عائد کردہ درخواستوں پر دنوں اور ہفتوں کے اندر کاروائی ھوتی ھے لہذا کوئی بھی کسی پر ظلم و زیادتی کرنے سے پہلے ایک سو بار سوچتا ھے۔
حکومت عوام کو بہترین سہولیات فراھم کرنے کے لیے ھر ممکن کوشش کرتی ھے اور اس کے لیے وزیراعظم باضابطہ طور پر پارلیمان میں پیش ھوتا ھے کہ جہاں نہ صرف بار بار اس کا محاسبہ ھوتا ھے بلکہ کوئی بھی پالیسی تمام اراکین کی مشاورت سے پارلیمان میں طے ھوتی ھے اور وزیراعظم تمام پالیسی بیانات پارلیمان میں ھی دیتا ھے یعنی عوام کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ھے کہ آپ کے ووٹ سے منتخب ھوکر آنے والے ھی آپ کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی غیر ملکی شہریت رکھنے والا فرد موجود نہیں ھوتا۔ حکومت خزانے کو عوام کی امانت سمجھتی ھے اور بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ جہاں چند پاؤنڈز کے غیر ضروری خرچ پر باز پرس ھوئی اور متعلقہ وزیر نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ جزا اور سزا کا کڑا نظام حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے یکساں ھے اس کی اصل وجہ آزاد عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی مکمل آزادی ھے کہ جہاں وہ بلا کسی سیاسی مداخلت کے کام کرتے ہیں۔ تعلیم و علم کا حصول مغرب کو مغرب بناتا ھے بنیادی تعلیم دینا ریاست کے فرائض میں سے اولین فریضہ ھے یہ ممکن نہیں کہ کوئی بچہ مغرب میں خواہ وہ شہریت رکھتا ھو یا نہ رکھتا ھو تعلیم سے محروم رہ سکے۔ اس کے لیے پرائمری و ھائی اسکولز کا جال پورے ملک میں پھیلا ھوا ھے اور یہ اتنا وسیع ھے کہ آپ کو اپنے گھر سے ایک میل کے اندر پرائمری اسکول میں داخلہ مل جاتا ھے اگر یہ بالفرض کسی وجہ سے آپ کے بچے کو ایک میل سے دور اسکول میں داخلہ ملا ھے تو آپ کسی قریبی اسکول میں تبادلے کی درخواست دے سکتے ہیں جوکہ نشست کے خالی ھونے پر از خود موثر ھوجاتی ھے۔ اس ھی طرح اعلی تعلیم و تحقیق مغرب کا بنیادی وصف ھے جو کام مغرب کو مغرب بناتا ھے اس میں اعلی تعلیم و تحقیق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ علم و تحقیق کا یہ سفر برطانیہ میں ایک ھزار سال سے جاری ھے کہ جہاں ایک ھزار سال قبل ریاست نے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی جامعات کی بنیاد رکھی اور ان جامعات کو وسائل کی فراہمی میں کوئی کمی واقع نہ ھونے دی۔ جہاں برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت ایک ھزار سالہ تاریخ رکھتی ھے وہیں پر دنیا کی بہترین جامعات میں سے یہ دو بھی ایک ھزار سالہ تاریخ کی حامل ہیں۔
اس کے علاؤہ درجنوں جامعات کی تاریخ بھی صدیوں پر محیط ھے اور تاحال علم و تحقیق کا یہ سفر ان جامعات میں جاری ھے۔ فلاحی ریاست کا تصور جوکہ اسلام نے سب سے پہلے پیش کیا تھا آج مغربی ریاستوں کی کامیابی کا پہلا نکتہ ھے کہ جہاں روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ھے یہ کام صرف نعروں تک محدود نہیں بلکہ ریاست اس پر سو فیصد عملدرآمد کی پابند ھوتی ھے۔ اس کے لیے ریاست ھر بچے کا وظیفہ مقرر کرتی ھے چاھے وہ بچہ وزیراعظم کا ھو یا عام مزدور کا ھر بچے کو یہ وظیفہ حکومت کی جانب سے ملے گا یعنی بچے اب ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ اس ھی طرح اگر آپ کی پاس روزگار نہیں تو حکومت یا تو روزگار کا بندوبستی کرے گی یا پھر آپ کو بیروزگاری الاؤنس دے گی تاکہ آپ اپنا گزر بسر کرسکیں۔ اگر کوئی فرد یا بچہ کسی قسم کی بیماری یا معزوری کا شکار ھے تو ریاست معذوروں کے اسکول میں اس کو تعلیم دلوائے گی اور اس کے لیے آپ کو بہترین سہولیات جس میں چند بیماریوں کے بچوں کے لیے فری ٹرانسپورٹ سروس کا بھی انتظام حکومت خود کرتی ھے اس ھی طرح کسی بھی بیماری کا علاج حکومت وقت کی بنیادی ذمہ داری ھے۔ اس علاج معالجے میں مریض کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ھوتا اور اس کو اسپتال میں کھانے پینے سے لیکر علاج اور ادویات کی تمام سہولیات ریاست فراھم کرتی ھے۔ اگر کوئی کسی ایسی بیماری یا معزوری کا شکار ھے جوکہ ایک طویل المدتی ھے تو اس کے لیے ریاست نرسنگ کیئرنگ کی سہولیات گھر پر فراھم کرتی ھے اور بعض اوقات ایسے افراد کو ایک طویل عرصے تک نرسنگ ھوم میں ریاست خود رکھتی ھے اگر آپ اپنے مریض کی دیکھ بھال خود کرنا چاھتے ہیں تو ریاست اس کے لیے بھی آپ کو ایک معقول الاؤنس دے گی۔ اگر متعلقہ مریض کے پاس گھر موجود نہ ھو تو ریاست اس کو پہلی ترجیح میں گھر کا انتظام بھی کر کے دی گی جس کے تمام اخراجات کرایہ بمعہ بل ریاست کے ذمہ ھونگے۔
مغرب کا سوشل سیکورٹی نظام اپنے اندر ایک ایسی کشش رکھتا ھے کہ دنیا بھر سے لوگ اس جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ گوکہ یہ تمام سہولیات آپ کو شہریت ملنے کے بعد حاصل ھوتی ہیں لیکن اس کے حصول کے لیے لوگ اپنی زندگی کے قیمتی سال اس راستے میں لگ کر گزار دیتے ہیں۔
بے تحاشا اچھی روایات و حکومت کے حامل مغرب میں صورتحال اس وقت کیا ھے یہ ھے اس سوال کا جواب کہ مغرب کیا ھے؟ ھر ایک نظام ریاست، سیاست اور حکومت کا اصل مظہر ان کے معاشرے ھوتے ہیں یا یہ کہہ لیں کہ ھم کسی بھی تہذیب کو اس کے معاشرے کے آئینے میں دیکھ کر اس کی فلاح و بربادی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ جو کچھ بھی میں اس ضمن میں رقم کررھا ھوں یہ میرا ذاتی مشاھدہ و تجربی ھے لہذا اگر کوئی اس میں مزید اضافہ کرنا چاھے تو اس کا ممنون ھونگا۔ ایک ستر سال کی عمر رسیدہ انگریز خاتون سے ملاقات ھوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک دوسرے شہر سے اپنے پوتے سے ملاقات کے لیے آئی ہیں ان کا پوتا ایک کیئر ھوم میں رھائش پذیر ھے اس کی عمر فقط سات سال ھے۔ اس کی وھاں موجودگی کی وجہ باپ کا جیل میں ھونا ھے جبکہ اس کی والدہ اس بچے کو اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں لہذا پہلے تو یہ بچہ اپنی عمر رسیدہ دادی کے پاس رھتا تھا اس کے بعد دادی کی صحت اس قابل نہیں رہی کہ وہ اس کا خیال رکھ سکیں تو حکومت نے اس بچے کو اپنی تحویل میں لیا اور ایک ھوم میں داخل کروادیا اب دادی بیچاری جوکہ خود دوسرے شہر میں رھائش پذیر ہیں ھفتے میں ایک دن دو گھنٹے کی ملاقات کے لیے صبح نو بجے اپنے گھر سے نکلتی ہیں اور شام پانچ چھ بجے گھر واپس آتی ہیں انہوں نے بتایا کہ پہلے تو بچہ میرے جانے کے بعد بہت روتا تھا لیکن اب ٹھیک ھے آج وہ اپنی سالگرہ کا کیک اپنے پوتے کے لیے لیکر جارہی ہیں۔
ایک اور افریقی نثراد برطانوی خاتون نے بتایا کہ گزشتہ رات اس کا بھائی اپنے آٹھ ماہ کے بچے کو لیکر اس کے فلیٹ میں آ دھمکا کیونکہ بچے کی والدہ نے بچے کو اپنے پاس رکھنے سے انکار کردیا ھے اب وہ ھی بیچارہ اس معصوم بچے کی دیکھ بھال کرتا ھے کیونکہ اب اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا تو وہ اپنی بہن کے پاس بچے کو لیکر آگیا لیکن بہن کا کہنا ھے کہ اس کی بیگم بچے کو اپنے پاس نہ رکھنے کے لیے بیماری کا بہانہ کررھی ھے اور اس کے پاس کرنے کے اور بھی کام ہیں لہذا وہ بھی بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی۔ اب یا تو یہ بچہ اس کے باپ کے پاس کچھ عرصے رھے گا ورنہ پھر اس کو حکومت اپنی تحویل میں لیکر کسی کئیر ھوم میں بھیج دے گی۔
ایک اور فرد جوکہ بڑی پریشانی میں تھا اس نے بتایا کہ اس کی سابقہ گرل فرینڈ جس سے اس کے بچے بھی ہیں اب وہ کسی اور کی گرل فرینڈ ھے اور اس کی بھی کوئی اور گرل فرینڈ ھے،اس سابقہ گرل فرینڈ کو اس کے موجودہ بوائے فرینڈ نے مارا لہذا وہ اپنے بچوں کو لیکر اس فرد کی موجودہ گرل فرینڈ کے گھر آگئی ھے لہذا اب اس کو اپنے بچوں اور سابقہ و موجودہ گرل فرینڈ دونوں کو سنبھالنا ھے۔
ایک ضعیف العمر فرد جن کی عمر 93 سال تھی نے بتایا کہ وہ شوبزنس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب ایک ریٹائرمنٹ ھوم میں زندگی بسر کررھے ہیں ان کے دو بچے تھے بیٹے کا 51 سال کی عمر میں ھارٹ اٹیک سے انتقال ھوگیا ھے۔ بیٹی کی عمر 60 سال سے زائد ھے اور وہ ایک اور شہر میں رھتی ھے کہ جہاں سے وہ کبھی کبھار ملنے آجاتی ھے۔
تعلیم، نظام عدل و انصاف، بہترین علاج معالجہ، مکان، خوراک، روزگار، بچے اور بہترین سہولیات کے ھوتے ھوئے بھی مغرب کیا اپنے آپ سے خوش ھے؟ اس سوال کا جواب کوئی یک سطری تو نہیں لیکن رجحانات دیکھ کر اندازہ لگانا شاید ممکن ھو میری نظر میں وہ نسل جوکہ 1990 کی دھائی میں پیدا ھوئی ھے اب جوان ھے وہ مغرب میں بدترین نفسیاتی مسائل کا شکار ھے اس سے قبل کی نسل میں بطور خاندان رھنے کا رجحان زیادہ تھا جو کہ اب آہستہ آہستہ کم ھوتا جارھا ھے جس کی وجہ سے بچے پیدا نہ کرنا، آزاد زندگی بسر کرنا اور نشہ مغرب کی شناخت بنتی جارھی ھے۔ آپ کسی بھی ھاسٹل کے باھر چلے جائیں آپ کو ایک چھوٹے قسم کے سلینڈر ھزاروں کی تعداد میں خاص طور پر ویک اینڈ پر پڑے نظر آئیں گے ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ ایک خاص قسم کی دوا گیس ھے جس کا استعمال مریض کو سن کرنے کے لیے کیا جاتا ھے اور اس ھی قسم کی ایک لافٹر گیس بھی آتی ھے جس کو سونگھ کر انسان کچھ وقت کے لیے تمام غموں سے آزاد ھوجاتا ھے اس کا استعمال نوجوانوں میں خطرناک حد تک بڑھ رھا ھے۔ یعنی ان تمام مادی ضروریات کے باوجود بھی مغرب کا نوجوان خوش نہیں ھے اور وہ اس کے لیے نت نئے حربے استعمال کررھا ھے۔ مادی ترقی کو سب کچھ سمجھ لینے والا مغرب آج خاندانی نظام کے زوال کا شکار ھے جوکہ لامحالہ مغرب کے نظام کی شکست و ریخت پر منتج ھوگا۔ لیکن اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ھے کہ مغرب اب تک کیوں شکست و ریخت کا شکار نہ ھوسکا؟
اس کا جواب ان شاءاللہ اگلی قسط میں۔