راشد دیدار از غلام عباس ساغر

ہیر رانجا ،سسی پنو،لیلیٰ مجنوں کے قصے کہانیاں تو بچپن سے سن رکھی تھیں مگر کبھی دل نہیں مانتا تھا کہ کوئی کسی کے عشق میں اس حد تک بھی جا سکتا ہے۔مگر کچھ عرصہ پہلے میری واقفیت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے راشد دیدار سے ہوئی جو آج کے دور کے ساغر صدیقی سے کم نہیں ۔راشد دیدار نے اپنی عمدہ طرز زندگی کو جیسے طلاق دے دی ہو ۔

پھٹے کپڑے ،بال بکھرے ، بدن مٹی میں لت پت اور سارا دن شاعری کی زبان میں کسی بے وفا کی یاد۔

راشد دیدار کچھ عرصہ قبل ایک حسین نوجوان اور پڑھی لکھی شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔مگر کسی کے عشق نے ان کو اتنا مجبور کر دیا کہ راشد دیدار نے اپنا گھر تک چھوڑ دیا اور اپنی محبوبہ کے علاقے کی گلیوں کو اپنا ٹھکانا بنا لیا۔

اسی جنون میں راشد کبھی کبھی نشہ بھی کرتا ہے سارا وقت گلیوں کے چکر لگاتا رہتا ہے۔جو راشد کو کچھ دے وہی لے کر کھا کر گزارا کر لیتا ہے۔راشد کو تمباکونوشی کے لئے ہر آتا جاتا ایک نہ ایک سگریٹ دے ہی جاتا ہے ۔راشد سے جب اس کی محبوبہ کا نام پوچھا جائے تو بس آنکھ نم کر کے بے وفا کہہ دیتا ہے۔

ہائے یہ عشق کتنا بڑا قاتل ہے ایسے کئی راشد جو اپنی محبوبہ کے لئے بھٹک رہے ہوں گے۔
راشد دیدار کی اک مشہور غزل آپ سبھی اہلِ ذوق کے پیش نظر

سر کُچلنے سے مجھے ظلمِ ستم یاد نہیں
کون کہتا ہے مجھے اپنا صنم یاد نہیں
میں تو روتا ہوں کبھی یاد اُسے کرتا ہوں
تم جو دیتے ہو مجھے اِتنا قَسم یاد نہیں
روز لکھتے تھے صنم دل کا کلیجہ لےکر
آج لکھنے سے مجھے رسمِ قلم یاد نہیں
کل جو کہتے تھے وہی بھول گئے ہو دیدار
آج کہتے ہو مجھے رنجِ شغم یاد نہیں

Comments (0)
Add Comment