ہمراز،سچا عشق اور شاعری

بات تو کچھ بھی نہ تھی اک رازداں کی خیر ہو
لفظ تھا جو دھیرے دھیرے داستاں بنتا گیا

میرے استاد محترم جناب کاشف سجاد صاحب نے کیا خوب احسن طریقے سے تلخ حقیقت سے پردہ اٹھا کر گھر گھر کی کہانی ایک شعر میں بیان کر دی ۔ ہمراز بھی کیا خوب ہوتے ہیں ۔ پچھلے ادوار میں جائیں ایسے لوگ راز کی اس طرح حفاظت کرتے تھے کہ جان جائے لیکن راز فاش نہ ہو ۔ کتنے قیمتی اور سچے لوگ ہوا کرتے تھے ان کی سچائی قابل رشک تھی ۔وہ اس قابل ہوا کرتے تھے کہ اگر کسی نے اعتبار کیا تو مر جاتے مگر اعتبار کی دھجیاں نہیں بکھیرتے تھے ۔ ہائے وہ قیمتی ہیرے منوں مٹی تلے دفن ہو گئے ۔ آج کے دور کا یہ عالم ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست سے اپنی کوئیبھی ایسی بات شیئر کرتا ہے جسے راز رکھنے کا باہمی تہیہ بھی کیا جاتا ہے لیکن دوسرے ہی دن رازداں اپنے رازداں بنا لیتا ہے اور آگے بات نہ کرنے کے عہدو پیماں کیے جاتے ہیں ۔ یوں وہی بات آجاتی ہے کہ
لفظ تھا جو دھیرے دھیرے داستاں بنتا گیا ۔

لیکن یہ تو وہ باتیں تھیں جو کرکے راز رکھنے کو کہنے کی عظیم بھول کی جاتی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ تو اپنے دوستوں کی پشت پر ایسا وار کرتے ہیں کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیتے ۔ ایسی بے پر کی اڑاتے ہیں کہ دور دراز ممالک تک چرچے ہو جاتے ہیں اور بات کچھ بھی نہیں ہوتی ۔ لوگ اسے اور بڑھا چڑھا کر آگے سے آگے بیان کرتے رہتے ہیں ۔ جس کے بارے میں یہ بے پر کی اڑائی جاتی ہیں اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آتا کہ آخر ہوا کیا ۔ خوامخواہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے بے چارہ اسے کہتے ہیں
ناکردہ گناہوں کی سزا ۔

ویسے حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں پر کہ وہ ضمیروں کا کیسے گلہ گھونٹ دیتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو دنیا کے تیکھے الفاظ کے نشانے کی زد میں کھڑا کر دیتے ہیں ۔ بھئی میرا تو یہی کہنا ہے خاص طور پر آج کے دور کے حوالے سے کہ ہر بندہ یا بندی اپنے راز داں آپ ہوتے ہیں ۔ بات زباں سے نکلی اور پرائی ہو گئی ۔

ہاں ایسی باتیں یا راز جو معاشرے میں اندر ہی اندر بگاڑ پیدا کرنے والی ہوں یا نسل کو بےراہ روی کی طرف مائل کرنے والی ہوں یا پھر ملک و قوم کے خلاف انتشار دہشتگردی اور تباہ کاری پیدا کرنے والی ہوں ۔ایسی باتوں کو راز رکھنا گناہ ہے معاشرے اور ملک کے ساتھ غداری ہے ۔ایسی باتوں کو منظر عام پر لا کر ان کا سد باب کرنا چاہیے ۔ تاکہ اپنے معاشرے کی حفاظت اور ملک و قوم کی حفاظت کی جا سکے ۔ آج کے رازدانوں کے کارناموں کے بارے میں میرا یہ شعر ہے کہ

آپ خود کو سنبھالنا ہوگا
دیکھ یاروں کو یار بیچیں گے

تو بات ہو رہی تھی ہمراز کی اس سے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ میں نے آج تین موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ۔ ہمراز،سچا عشق اور شاعری۔ دل دکھا دینے والا موضوع سچا عشق مطلب آج کے دور کا عام سچا عشق جس سے گھر کے گھر اجڑ رہے ہیں اور نسلوں کی نسلیں تباہی کے دھانے پر کھڑی ہیں ۔ یہ سب کیا ہے اس پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جو میں نے دیکھا اور سنا اور مشاہدہ بھی کیا ہے کہ آج کل لڑکپن سے لے کر بوڑھاپے تک کے اکثر و بیشتر معقول یا نا معقول حضرات کو سچا عشق ہونے کا مرض لا حق ہو رہا ہے۔ اور پھر ایک ایک مرد اور عورت کو نہ جانے کتنے لوگوں سے سچا عشق ہو جاتا ہے ۔ اور طریقہ واردات کچھ یوں ہوتی ہے ۔
ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی خبر نہیں ہوتی ۔

یہ حضرات سر آئینہ دیکھنے میں اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ ان کو پس آئینہ کیا ہو رہا ہے یہ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی یا ان کی آنکھوں پر ایسے پردے ڈالے گئے ہوتے ہیں یا اتنے سبز باغ دکھا دیے گئے ہوتے ہیں کہ وہ اندھا دھند جو سمجھایا جا رہا ہوتا ہے وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ معاشرے کا بگاڑ کچھ اس صورتحال سے بھی تناور شجر بنتا جا رہا ہے ۔ پڑھے لکھے حضرات بھی پیش پیش ہوتے ہیں ۔ ہمارے سیاست دانوں نے بھی شائد کئی کئی شادیاں سچے عشق کی بنیاد پر ہی کروائی ہوئی ہیں ۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ اصل افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ جھوٹ پر مبنی حرکات و سکنات عشق کے تقدس کو پامال کر رہی ہیں ۔ جب سچ سامنے آتا ہے تو نوبت گھروں کے اندر فسادات ماردھاڑ تک پہنچ جاتی ہے ۔ خدارا سچ کا دامن تھام لیں اپنی سوچوں کے زاویے درست اور سچے راستوں کی طرف موڑ لیں ۔ اپنی عزت اور اپنوں کی عزتوں کی حفاظت کریں ۔ عشق تو پاکیزہ جزبہ ہے اللہ کی ذات سے نکلتا ہے اور وہیں جا کر اختتام پزیر ہو جاتا ہے پھر عشق سے بھی آگے کی منازل شروع ہو جاتی ہیں ۔ یہ اصل منازل ہیں جو ہماری دنیا اور آخرت سنوارنے میں معاون و مددگار ہیں ۔ یہ جسم تو مٹی میں مل جانا ہے ۔ اس کی خوبصورتی سے کیا حاصل اندر کے انسان کی خوبصورتی اہم ہے ۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچے بچیوں کی تعلیم و تربیت پر کڑی نظر رکھیں ۔ ان کو شیر کی آنکھ سے دیکھیں ۔ مگر دوستانہ رویہ بھی اختیار کریں تاکہ ان کی اچھی بری عادات پیش نظر رہیں ۔ بے جا سختی بغاوت اور بے جا نرمی غلط راستوں کی طرف لے جاتی ہے ۔ اعتدال پسندی سب سے اچھا رویہ ہے ۔ ایک اور بات یاد آ گئی کہ بچے خاص طور پر بچیوں کو اکیلے بازاروں اور دوستوں کی آپس کی پارٹیوں میں بھیجنے کی بجائے خود ساتھ جائیں ۔ سیر گاہوں پر بچوں کو خود لے کر جائیں نہ کہ کلاس فیلوز کے ہاتھوں سونپ دیں ۔ بہت سی درست تدابیر بہت سی برائیوں کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں ۔ محبت کریں اپنے بیوی بچوں سے بہن بھائیوں سے اہل دانش دوستوں سے جن کی روحیں پاکیزہ ہوتی ہیں ۔ ولی اولیاء کرام علم والوں میں وقت گزاریں ۔ جو آپ کو اللہ سے دوستی اور عشق سے آشنا کرواتے ہیں ۔ اپنی صلاحیتوں کو اپنے وطن کی بہتری کے کاموں میں صرف کریں ۔ وقت اور توانائی ہمارا قیمتی ترین سرمایہ ہیں ۔ ہر وقت نظر رکھیں کہ یہ کب کہاں اور کس پر استعمال ہو رہے ہیں ۔ درست راستوں کا تعین کریں ۔ باتیں اتنی ہوتی ہیں کہ پتہ نہیں کہاں لے جاتی ہیں ۔ تو بات کرتے ہیں شاعری کی تو شاعر تو اللہ کی طرف سے پیدا کی گئی وہ ہستیاں ہوتیں ہیں کہ جن کے اندر اللہ شاعری کا وصف رکھ کر ان کو دنیا میں بھیجتا ہے ۔ شاعر شعوری طور پر عظیم ہوتے ہیں ۔ پچھلے ادوار کو دیکھ لیں ہر شاعر اپنے اپنے دور اور حالات کے مطابق لوگوں کے ذہنوں کی آبیاری اپنی شعری صلاحتیوں سے کرتا آرہا ہے ۔ شاعر نے معاشرے کے ہر معاملے پر شاعری کی ہے نئی جہتوں سے واقف کروایا ہے ۔ اور خاص طور ہمارے ہمارے صوفی شاعر جنھوں نے اللہ سے خاص تعلق کی بنا پر لوگوں کو حق و باطل کی پہچان کروائی ۔ مجھے ہر صوفی شاعر کی شاعری سے عقیدت ہے ۔ حضرت بابا بلھے شاہ میاں محمد بخش وارٹ شاہ بابا فریدالدین گنج شکر حضرت ھمی شاہ نونامی سرکار حضرت علامہ محمد اقبال حتی کہ تمام صوفی شعرا جو اللہ کے دوست بھی ہیں انھوں نے تصوف کو عروج بخشا اور اپنے اپنے طریقے سے لوگوں کو روحانیت کی طرف مائل کرنے کی کوششیں کیں ۔ اسی طرح آج کا شاعر بھی اپنے اپنے طریقے سے غم جاناں اور غم دوراں پر قلم اٹھا رہا ہے ۔ اور تصوف پر مبنی شاعری بھی ہو رہی ہے ۔ لیکن مجھے شکایت ایسے شعرا کرام سے ہے جو کھلم کھلا بے راہ روی کی طرف لے جانے والی شاعری کرتے ہیں اکثر مشاعروں میں نا زیبا کلام تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ تکلیف سے مجھے آج کے بہت سینئر شاعر سعداللہ شاہ صاحب کی بات یاد آگئی ہر محفل مشاعرہ میں وہ فضول اور بےوزن شاعری پر غم و غصے کا برملا اظہار کردیتے ہیں ۔ حال ہی میں ایک مشاعرہ ایک جگہ مرتب کیا گیا جس کی مہمان خصوصی میں بھی تھی اور صدارت سعداللہ شاہ صاحب کی تھی وہاں شاہ صاحب کی طبیعت بھی کچھ ناساز تھی اوپر سے صدر محفل کو آخر تک بیٹھنا اور سننا ہوتا ہے ۔ کچھ بےوزن شعرا کے کلام پر شاہ صاحب سیخ پا ہوگئے اور برملا اظہار بھی کیا اور بےوزن شعرا کو سننے پر اعتراض بھی کیا مجھے تو شاہ صاحب کی یہ عادت اچھی لگی ۔ جو بات غلط ہے وہ غلط ہے ۔ اسی بات پر اکثر لوگ ان سے خار کھاتے ہیں ۔ سچ بات کہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ شاہ صاحب کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ وہ خواب بھی بے وزن نہیں دیکھتے ۔

بات ہو رہی تھی شاعری کی تو ہر دور میں شاعری اپنی پہچان آپ رہی ہے شاعروں نے اپنے اپنے ادوار میں بہترین شاعری بھی کی ہے ۔ جیسا کہ آج کل سیلابی صورتحال پر تقریبا سب شعرا کرام نے قلم اٹھایا ہے ۔ درد کا اپنے اپنے طریقے سے اظہار کیا اور بہترین حکمت عملی اور تدابیر اختیار کرنے کا درس بھی دیا وطن پاکستان کو اللہ قائم و دائم رکھے آمین ۔ اوورسیز پاکستانی شعرا بھی اس دکھ پر قلم اٹھا رہے ہیں ۔ اور ناقابل برداشت دکھ کو اپنے طریقے سے رقطراز کر چکے ہیں اور یہ عمل جاری ہے ۔ اللہ ہماری اور ہمارے وطن کی حفاظت فرمائے آمین ۔

وطن سے گوہر یوں پیار کرنا
یہ جاں بھی مانگے نثار کرنا

اللہ ہمارا حامی و ناصر رہے ۔ آمین ۔
انمول گوہر لاہور

Comments (0)
Add Comment