عمران خان کا درست فیصلہ

میرے ایک دوست سندھ ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور سندھ بار کونسل کے ممبر بھی ہیں۔ ہم ایک تقریب میں شرکت کرنے کے لیے ساتھ جارہے تھے ۔ شام کا وقت تھا کراچی صدر کے علاقے میں بہت رش تھا۔ ٹریفک سست روی کا شکار تھی ٹریفک سگنل خراب ہونے کی وجہ سے ٹریفک سارجنٹ ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران وکیل صاحب نے سوال کیا اگر آپکا چالان ہو جائے تو آپ کیا کریں گے میں کہا کس بات پر چالان ہو جائے، کہنے لگے چلیں مان لیتے ہیں سگنل توڑنے پر یا پھر غلط پارکنگ پر۔

تومیں عدالت جا کر چالان جمع کروا دوں گا اس پر انہوں نے کہا یہی فرق ہے ایک عام شہری اور ایک قانون کو جاننے اور سمجھنے والے شہری پر،فرمانے لگے چالان جمع کرانے کا مطلب ہے اپنی غلطی مان لی ایسا ایک عام شہری کہے گا یا سمجھے گا مگر قانون کو جاننے اور سمجھنے والا یہی کہے گا کہ اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ جمہوری ملک میں مجرم یعنی قانون توڑنے والا کبھی بھی سرکاری نوکری حاصل نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی الیکشن لڑ سکتا جب تک سزا پوری نہ ہو جائے۔

سادہ سی وجہ ہے جو شخص قانون پر عملدرآمد نہیں کر سکتا وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسکی نظر میں قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں نے ان سے استفسار کیا تو پھر کیا کرنا چاہیے انہوں نے کہا آپ کیس لڑیں اور عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کریں۔اس طرح کے مقدمات برسوں چلتے ہیں ہماری عدالتوں میں۔ آپکا وکیل آپکے حق میں دلائل دے گا اور کیس چلتا رہے گا اور ایک وقت آئے گا اس کیس کی اہمیت ہی ختم ہوجائے گی کیونکہ حکومتی وکیل کے پاس اور بھی کیسز ہوتے ہیں۔ آج عمران خان اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے کہ میں معافی نہیں مانگوں گا ، انہوں نے پشاور کے جلسے میں یہ بات کہی کہ میں اداروں کا احترام کرتا ہوں اور عدلیہ کے ساتھ کھڑا ہوں آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے چھ دفعہ عمران خان کے وکیل سے کہا آپ غیر مشروط طور پر معافی مانگ لیں، عدالت اس پر نظر ثانی کرے گی مگر وکیل صاحب نے کہا ہمارے موکل نے اپنے الفاظ واپس لے لیے ہیں، دکھ کا اظہار کیا ہے ، آئندہ احتیاط کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا یہ صرف توہین عدالت کا کیس نہیں ہے بلکہ کرمنل کیس ہے ۔ یہ ایک جرم ہے، غیر مشروط معافی ہی اسکا حل ہے۔ آج پانچ وکلاء نے اپنے دلائل دیئے پانچ رکنی بینچ کے سامنے۔ حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل، عمران خان کے وکیل اور تین معاون وکلاء بھی تھے ۔دو حکومت کی طرف سے اور ایک عدالت کی طرف سے ۔ تینوں معاون وکلاء نے عمران خان کا ساتھ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا اعلیٰ عدلیہ اپنے بڑا پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کیں کو خارج کر دے۔

تینوں وکلاء نے عمران خان کے حق میں دلائل دیے۔ مگر جج صاحبان اسی بات پر زور دیتے رہے غیر مشروط معافی مانگ لیں۔عدلیہ نے اپنے مختصر فیصلے میں یہی کہا ھے 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔ عمران خان نے عدالت سے تین بار کہا میں اپنا موقف خود دینا چاہتا ہوں مجھے اجازت دی جائے۔جج صاحبان نے کہا آپکے وکیل نے آپکا موقف پیش کر دیا ہے اور ہم نے سن لیا ہے ۔آج سپریم کورٹ میں عمران خان کی طرف سے درخواست دائر کر دی گئی ہے ہائی کورٹ کو اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ سوموٹو نوٹس لے یہ دائرہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو حاصل ہے۔

موجودہ امپورٹڈ حکومت کے وزیراعظم اور انکے بیٹے پر بھی فرد جرم عائد ہونے کی درخواست مسلسل التوا کا شکار ہے آٹھ ماہ ہونے کو آئے ہیں مگر تاریخ پر تاریخ دی جا رہی ہے ۔ عمران خان اور انکے وکلاء کی ٹیم نے درست فیصلہ کیا ہے غیر مشروط طور پر معافی نہیں مانگنے کا۔ دوسری طرف تین دفعہ وزیراعظم رہنے والا سزا یافتہ، مفرور اور اشتہاری مجرم کی واپسی 25 ستمبر کو متوقع ہے اور اسکی یہی خواہش ہے واپسی سے قبل عمران خان کو سزا سنا دی جائے اور الیکشن سے باہر کر دیا جائے۔

پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کر کے گورنر راج لگا دیا جائے نہیں تو کم از کم پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کر دیا جائے تاکہ نواز شریف کو گرفتاری سے بچایا جا سکے۔ اگر اس کھیل میں رجیم چینج کرنے والوں نے مداخلت کی تو اعلیٰ عدلیہ پر ملکی اور غیر ملکی سطح پر تنقیدکی جائے گی ۔جس طرح سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کیس پر کی جاتی ہے کہ انکا جوڈیشل مڈر ہوا ہے ۔ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں "پی سی او” کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے خلاف آج بھی ان پر تنقید کی جاتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment