ہماری دینی و اخلاقی اقدار اور ہماری معاشی زبوں حالی

معیشت ویسے تو ایک سائنسی موضوع ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق معاشرے سےجڑا ہے لہٰذا ہماری سماجی سوچ، اقدار اور اخلاقیات کا عوامی معیشت سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور اس باہمی تعلق سے وقوع پزیر ہونے والے عوامل ہمیں معاشرے کی فکری سطح اور کردار سے آگاہی بخشنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر انسان کی مالی خوشحالی یا تنگی کے دوران دیا گیا ردعمل انسان کی فکری سطح کا پتہ دیتا ہے۔

پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارے ملک کے امیر ترین کاروباری طبقے کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس نے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کمزور اور ناپائیدار معیشت کے باوجود ہماری مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اپنی مالی مشکلات پر قابو پا کر نمایاں ترقی کی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس طبقے کے بتدریج بلند ہوتے معیار زندگی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ان لوگوں کو اب بہتر زندگی بسر کرنے کے مالی ذرائع میسر ہیں جنہیں بروئے کار لا کر وہ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں میں سکون و آشتی پیدا کر سکتے ہیں۔

لیکن ایک قابل افسوس بات جو میرے مشاہدے اور تجربے میں آئی ہے وہ یہ کہ ایسے افراد کی اکثریت اپنے مالی حالات میں بہتری کے باوجود اپنے پروردگار کی شکرگزاری اور اپنی مالی حالت پر اظہار اطمینان کرنے جیسے دینی اور اخلاقی اوصاف سے یکسر محروم نظر آتے ہیں۔ اپنی مالی خوشحالی کے باوجود اپنی معیشت سے متعلق کوئی نہ کوئی شکوہ ہمیشہ ان کی زبان پر ہوتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایسے افراد نے اپنی آرزوؤں کو بےلگام کر دیا ہے اور وہ اس بات سے قطعی ناواقف ہیں کہ "لامحدود آرزویں محدود زندگی کو عذاب بنا دیتی ہیں”۔ اگر اپنی نمایاں مالی کامیابیوں کے باوجود انھیں اطمینان قلب نصیب نہیں ہوا اور وہ اپنے رب کے حضور دو بول شکرانے کے ادا نہیں کر سکتے تو پھر ان کا مسئلہ معیشت سے متعلق نہیں بلکہ اخلاقی نوعیت کا ہے۔ یعنی قناعت پسندی کی صفت سے نابلد ہونا انھیں اپنی مالی آسودگی کے اصل ثمرات سے محروم کر کے ان کی بے چینی اور ذہنی الجھنوں کا باعث بن رہا ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے معاشرے نے نمودونمائش کی غرض سے دولت کے بےجا ضیاع کے عمومی رحجان کے زیر اثر خود اپنے لئے معاشی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ اس میں سر فہرست شادی بیاہ کی نت نئی رسموں اور اور اسی طرح کی دوسری خرافات کو بغیر سوچے سمجھے اپنی زندگی کے فرائض میں شامل کرکے اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ ان پر لوٹا دینا ہے۔ صاحب حیثیت طبقے کا دوسروں کو اپنی دولت سے متاثر کرنے کے اس فعل سے کم مالی حیثیت رکھنے والا طبقہ معاشی دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ اور پھر یہ کمزور طبقہ اپنی ناک اونچی رکھنے کی غرض سے امیروں کے نقش قدم پر چلنے کی تگ و دو میں اکثر قرض کے بوجھ تلے دب کر اپنی معیشت کا خود ہی دیوالیہ نکال لیتا ہے۔ اسلام ہمیں نکاح کو آسان بنانے اور خرچ (بلکہ ہر کام) میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس بات کا جواب کون دے گا کہ ان بنیادی دینی احکامات پر عمل کئے بغیر ہی ہم نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ کیسے قرار دے دیا ہے؟

اس کے علاوہ ایک دوسرے سے مقابلے کے رحجان نے بھی معاشرے میں ایک عجیب کشمکش اور افراتفری کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ برانڈڈ آئٹمز کا استعمال، بڑی گاڑیاں، پر آسائش گھر اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کا داخلہ وغیر وغیرہ جیسے کاموں میں بھی بڑی حد تک مقابلے اور دکھاوے کا عنصر ہی کارفرما ہوتا ہے۔ غیر صحتمند مقابلے کی یہ فضا حلال اور حرام کے فرق میں تمیز ختم کر کے معاشرے کی توجہ صرف دولت کے حصول پر مبذول کرا دیتی ہے۔ اور ایسی سوچ معاشرے میں خود غرضی اور کرپشن جیسی برائیوں کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔ اپنی آمدن کا بڑا حصہ دوسروں کو نیچا دکھانے جیسی بیمار خواہش کی تسکین پر لٹا دینے والے اس معاشرے کو اپنے اندر یہ احساس جگانے کی ضرورت ہے کہ ہمیں تو نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

میری نظر میں مال و دولت کو عزت و قار کا معیار اور کسوٹی بنا لینا ہمارے دینی اور اخلاقی اقدار کی پستی کی بد ترین مثال ہے۔ ملک میں مالی کرپشن کا فروغ اسی اخلاقی قدر کے زمین بوس ہونے کا نتیجہ ہے۔ جس کے پاس جتنا زیادہ زر و دولت ہے وہ دوسروں کی نظر میں اتنا ہی زیادہ عزت دار اور قابل احترام گردانہ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ عزت دار کہلوانا ہر شخص کا ایک بنیادی اور جائز حق ہے لہذا معاشرے کی اکثریت جائز اور ناجائز ذرائع آمدن میں فرق کو بالا تاک رکھتے ہوئے پوری تندہی سے ذیادہ سے زیادہ "غزت” کمانے کی حوس میں مصروف عمل ہے۔ اپنے اس "جائز حق” کے جلد از جلد حصول کی خاطر معاشرے نے اپنے آئین دین و اخلاق میں ترمیم کر کے مالی کرپشن کو جائز قرار دے دیا ہے۔ اور مالی کرپشن معیشت کو کیسے دیمک کی طرح چاٹتی ہے یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔

مندرجہ بالا سماجی روئیوں اور اخلاقی اقدار کی موجودگی میں ہمارا معاشرہ کبھی بھی معاشی ترقی کے ثمرات سے صحیح طریقے سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ با وقار معاشرے اپنے کمزور معاشی حالات کے باوجود کٹھن مراحل کا خوش اسلوبی سے مقابلا کر کے زندگی کے شب و روز سہل اور خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے پختہ کردار، بلند افکار و اقدار، قناعت پسندی، راست بازی اور اخوت و قربانی جیسے اوصاف درکار ہوتے ہیں جس سے ہمارا معاشرہ یکسر عاری ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے میڈیا کو اسے اپنی قومی ذمہ داری گردانتے ہوئے معاشرے کو ان برائیوں کا احساس د لانے اور ان کے تدارک کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔

زاہد بشیرہماری دینی و اخلاقی اقدارہماری معاشی زبوں حالی
Comments (0)
Add Comment