ہجرت کرنے والے بھی مختلف صورتوں میں دکھا ئی دیتے ہیں ۔ کئی لوگ اپنے اصول اور رسم و رواج کے آنگن سے ہجرت کر جاتے ہیں ۔ ان کے اس عمل کے پیچھے جانے کیا مجبوریاں یا ضروریات یا پھر بغاوتیں کار فرما ہوتی ہیں ۔ وہ نصنع سے آراستہ بناوٹی روپ اختیار کر لیتے ہیں ۔ دکھاوے کی ہوس میں پاگل ہو جاتے ہیں ۔بس دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے ۔ مگر ہر ذی روح شخص خاموش نہیں رہتا ۔ وہ اپنی زبان یا قلم کے ذریعے ایسے حالات و واقعات پر روشنی ڈالتا رہتا ہے ۔ کئی لوگ تو روشنی سے منحرف ہو کر اندھیروں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں ۔ یہ زیادہ تر مایوس افراد اختیار کرتے ہیں اور اندھیروں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں ۔ گمراہی ان کے اندر رہائش پزیر ہو جاتی ہے ۔ان میں سے شاذ و نادر ہی کو ئی واپس روشنی کی طرف لوٹتا ہے ۔
یہ ہجرت بھی کمال چیز ہے ساری کایا ہی پلٹ کر رکھ دیتی ہے ۔ بہت سے لوگ اپنے گھروں کے اندر ہی ہجرت شروع کر دیتے ہیں بٹواروں کی صورت ۔آنگن میں دیواریں اٹھا دیتے ہیں ۔ یہ ہجرت جائیدادوں کے ساتھ ساتھ رشتوں کے بٹواروں کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔ رشتوں کا خون لوگوں کو ذندہ لاشیں بنا دیتا ہے۔
دراصل انسان کی جبلت میں ہجرت شامل ہے ۔ وہ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سے ہجرت کر کے رہتا ہے ۔ کبھی بیٹیوں کو بابل کے گھر سے سسرال ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ تو کبھی ذریعہ معاش کی خاطر خاندان دور دراز علاقہ جات کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں ۔
لیکن سب سے فائدہ مند ہجرت وہ ہوتی ہے جب انسان اپنے اندر کی طرف ہجرت کرتا ہے ۔ یہ بڑی مسحور کن ہجرت ہوتی ہے ۔ اس ہجرت کو اولین حیثیت دیتی ہوں ۔ یہ ہجرت انسان کو اللہ سے اور اللہ والوں سے روشناس کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ اور جب انسان کو اللہ والوں اور اللہ کا ساتھ مل جائے تو اسے دنیا کی کسی چیز کی طلب نہیں رہتی ۔ دنیا بے معنی ہو جاتی ہے ۔ یہ دنیا میں بہترین مہاجر لوگ ہوتے ہیں آج کے دور میں ان لوگوں کی اشد ضرورت ہے ۔ کسی کو کہیں مل جائیں فیض حاصل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ۔ یہی ہجرت والے لوگ دنیا و آخرت کی بہتری کا سبب بنتے ہیں۔
ہجرت کرنا تو اسلام میں بھی ہے کہ اگر آپ کو رزق کے معاملات میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنی پڑے تو بلا تاخیر ہجرت کر لینی چاہیے ۔ لیکن سب سے تکلیف دہ ہجرت نفرتوں کی اجارہ داری کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ یہ خاندانوں میں دوریاں اور رشتوں میں دراڑیں پیدا کرکے معاشرے کا سکون بھی اجاڑنے کا سبب بنتی ہے ۔ لیکن ہر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا آج کے دور میں بہادری سمجھنے لگا ہے ۔ کچھ ہمارے ملکی معاشی سیاسی سماجی اور اقتصادی ومعاشرتی مسائل اتنے ہیں کہ لوگ سوچوں کے طوفانوں میں پھنسے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو خودکشی کا راستہ اپنانے کو بہترین حل قرار دے لیتے ہیں ۔ کچھ لوگ ملک سے بیرون ملک ہجرت کر جانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وطن کی یاد ہجرت کے بعد ان کو سکون سے جینے نہیں دیتی ۔ لیکن وہ پھر بھی محکوم بن کر زندگی گزار لیتے ہیں ۔ ہمارے سیاستدان اپنے کارناموں پر پردہ ڈالنے کے لیے یا اپنے اثاثہ جات بیرون ممالک بنانے محفوظ کرنے کے لیے یا پھر اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت کو اولین ترجیح دیتے ہیں ۔ اس ہجرت میں قانون بھی بے بس نظر آتا ہے ۔ کچھ شور شرابا عوام میں ہوتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی دولت اور عہدوں اور تعلقات کی بنا پر ہجرت در ہجرت کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ہجرت ملک و قوم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔
بعض لوگ جاہلانہ عناصر کے زیر اثر ہجرت کرتے ہیں ۔ یہ ہجرت لکیر کی فقیر ہوتی ہے ۔ جس نے بھی جس کو جہاں کہا ہجرت کروالی ۔ ان لوگوں کی ایک علیحدہ قسم ہوتی ہے ۔ یہ ہجرت بے راہ روی قتل و غارت گری دہشت گردی جھوٹے عشق و محبت اور بہت سی معاشرتی برائیوں میں دھکیل دیتی ہے ۔یہ لوگ عقل سے پیدل ہوتے ہیں اپنی ذہنیت کے لوگوں کی بات مانتے ہیں ۔ اور اس وقت پچھتاتے ہیں جب وقت کی ڈور ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ہوتی ہے ۔ یہ ہجرت نسلوں کی تباہی کا باعث بنتی ہے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ اتنی افراتفری میں پڑے ہوئے لوگ وقت ہی نہیں نکال پاتے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور کریں ۔ تاکہ پرسکون معاشرہ تشکیل پا سکے ۔ دوسروں کی غلطیوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ شعور سے عاری لوگ اہل شعور کے لیے بھی اعصاب شکن بن جاتے ہیں ۔
اللہ سے دعا ہے کہ لوگ احتسابی کا عمل شروع کردیں ۔ تاکہ راہ ہدائت پا سکیں ۔
انمول گوہر/لاہور