پہلی سعادت

ان ہزاروں زائرین میں سے ایک میں بھی تھا جو عمرہ کی سعادت کے لئے آیا تھا۔اپنی زندگی کے دس سال میں یورپ کی فضاؤں میں سانس لینے کے بعد نہ جانے یہ خیال کیسے آیا یا شاید مجھے بلاوے کی سعادت نصیب ہونا تھی۔میں اپنے احساسات کو کوئی بھی نام نہیں دے پا رہا تھا۔اپنی پینتیس سالہ زندگی میں شاید چند ایک بار ہی میں نماز کے لئے مسجد گیا ہوں گا اور اکثر میں مہینوں جمعہ کی نماز ادا کرنا بھی بھول جایا کرتا تھا۔میری عیدیں بھی رسماً ادا ہوتیں مگر پاکستان میں واپسی کے لئے ارادہ کرتے ہوئے نہ جانے کیوں خیال آیا کہ ایک بار عمرہ کر لیا جائے۔شاید ہم انسانوں کو قدرت نے ہر قدم پہ قسمت کی الگ الگ ڈوریاں تھما رکھی ہیں۔جو ہم فیصلے کرتے ہیں جو نصیب میں ہوتے ہیں وہ اکثر تقدیر بن جاتے ہیں۔

میں عمرہ ٹکٹ ہاتھ میں تھامے سوچ رہا تھا کہ پچھلے دس سالوں میں،میں پانچ بار پاکستان جا چکا ہوں ایک بار بھی میرے من میں خیال نہیں آیا کہ میں کعبہ جاؤں۔شاید بلاوے کا جو وقت متعین تھا اسی وقت پہ حاضری نصیب ہونا تھی۔دس گھنٹوں پہ مشتمل ہوائی سفر آخر مکہ مکرمہ ائیرپورٹ پہ اختتام پذیر ہو گیا۔یہ وہ سر زمین تھی جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا تھا۔اس کی فضاؤں میں میں پہلی بار سانس لے رہا تھا۔ائیر پورٹ سے نکل کر میں ٹیکسی کے ذریعے خانہ کعبہ کے لئے روانہ ہو گیا۔جوں جوں خانہ کعبہ قریب آتا جا رہا تھا نہ جانے کیوں میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔شام ڈھل چکی تھی اور رات کا اندھیرا ہر سو چھا چکا تھا۔کیمپ پہنچ کر میں نے بیگ وہیں رکھا اور اپنے لئے احرام خرید کر زیب تن کیا اور پھر خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے مسجد الحرام کی جانب چل پڑا۔میرے قدم بھاری بھاری ہوتے جا رہے تھے۔سفر تمام ہوا اور میں مسجد الحرام کے دروازے پہ کھڑا تھا۔کچھ وقت کے لئے میری آنکھیں جھپکنا بھی بھول گئیں۔میں سانس نہ لے سکا اور اندر عجیب سی ہلچل مچ گئی تھی۔جیسے ہی مسجد الحرام کا دروازہ پار کیا تو آنکھوں کے سامنے اور ہی منظر تھا۔میں دیر تک خانہ کعبہ کو کھڑا دیکھتا رہا۔ہزاروں زائرین طواف کر رہے تھے،کچھ سجدوں میں مصروف تھے تو کچھ لوگ ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے۔کچھ لوگ حالت قیام میں کھڑے صرف خانہ کعبہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔شاید وہ بھی میری طرح پہلی بار خانہ کعبہ کی زیارت کو آئے تھے۔

میں نے دونوں ہاتھوں سے خود کو ٹٹولا اور اپنے چہرے کو چھوا تو میری آنکھیں دیر تک آنسو بہانے کی وجہ سے گیلی ہو چکی تھیں۔میرا چہرہ آنسوئو سے تر تھا اور ٹھوڑی پہ آنسوؤں کے چند قطرے تھے۔میں نے حیرانگی سے خود کی طرف دیکھا۔میں اپنی زندگی میں آخری بار تب رویا تھا جب پاکستان سے انگلینڈ شفٹ ہوتے اپنے ماں باپ سے ملا تھا مگر اس بات کو دس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا مگر آج یہ نم آنکھیں کیوں؟۔یہ میری خوش بختی تھی یا شرمندگی کہ میں اس ذات پاک کو بھول چکا تھا مگر اس نے مجھے یاد رکھا اور مجھے اپنے گھر بلایا۔میں طویل سجدے کر کے بھی اس سعادت کا قرض ادا نہیں کر سکوں گا۔میں نے قدم آگے بڑھانے کی کوشش کی کہ میں کعبہ کو قریب سے دیکھ سکوں مگر مجھ سے یہ ممکن نہ ہو سکا میں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکا تو وہیں سجدے میں گر کر زار و قطار رونے لگا۔سب کچھ ہونے کے باوجود مجھے اس گھر میں آنے کا خیال کیونکر نہ آیا۔کئی سوال ذہن میں لئے میں آدھی رات کے بعد کیمپ کی طرف لوٹا مگر میرا دل اب وہیں کا ہو کر رہ چکا تھا یہ چند لمحوں کی جدائی میرے لئے جیسے رحلت کا وقت تھا۔ابھی مجھے مزید بیس دن تک خانہ کعبہ میں قیام کرنا تھا مگر خانہ کعبہ آ کر مجھے لگا کہ بیس سال بھی میرے لئے بیس لمحوں جیسے ہونگے۔

شاید مسلسل دس گھنٹے کا سفر کرنے کی وجہ سے جسم تھکاوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔جس کی وجہ سے بدن کا ہر عضو دکھ رہا تھا۔مکہ پہنچتے ہی میں نے کیمپ میں کچھ دیر سستانے کی بجائے مسجد الحرام کا رخ کر لیا تھا جس کی وجہ سے آرام کا بالکل بھی وقت کا نہ مل سکا۔مجھے کعبہ دیکھنے کا اس قدر اشتیاق تھا کہ میں نے پل بھر بھی رک کر کیمپ میں اپنی آرام گاہ کو نہ دیکھا۔مگر جب میری آنکھوں کے سامنے خانہ کعبہ آیا تو مجھے ادراک ہوا کہ اسے دیکھنے کا اشتیاق نہیں بلکہ محبت اور عقیدت تھی جو اس در پہ لے آئی تھی۔نہ یہ محبت کب سے تھی۔خانہ کعبہ میں کچھ پل بیتانے کے بعد میں اپنے ماضی کے بیتے پل بھی بھول چکا تھا۔شاید دنیا کا ہر مسلمان جب بھی بیت اللہ شریف کی زیارت کے لئے جاتا ہے تو اپنا ماضی،حال اور مستبقل بھول کر اک نئی دنیا میں چلا جاتا ہے جہاں اللہ اور اس کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں ہوتا۔میں اپنا بستر درست کر کے کچھ دیر سستانے کی غرض سے لیٹ گیا۔”کیا یہ ضروری ہے کہ ہر وقت مسجد میں عبادت میں مشغول رہنے والوں کو ہی اللہ اپنے حضور بلائے۔

کیا یہ ضروری ہے صرف پارساؤں کی جگہ ہی خانہ کعبہ ہو۔شاید اس دنیا میں میرے جیسے گناہگار بھی تو ہو سکتے ہیں۔جن کا عقیدہ کمزور ہو۔جنہیں یہ بھی یاد نہ ہو کہ میں نے آخری نماز کب پڑھی۔شاید وہ بھول چکا ہو کہ اس نے آخری نیکی کب کی تھی۔شاید ہم تو گناہ کر کے بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک دن حشر کے دن رب کریم کے سامنے پیش ہونا ہے۔میں نے اپنی زندگی کا محاسبہ کیا تو خود کو اس مجرم کی طرح پایا جو کٹہرے میں کھڑا ہو اور اس پہ جرم کی ہر دفعہ لاگو ہو”میں یہ سب سوچ رہا تھا کہ اچانک میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔آنکھیں گناہوں کو یاد کرنے سے پرنم ہو گئیں۔میں نے مزید سستانے کا ارادہ ترک کیا اور فوراً اٹھ کر مسجد الحرام میں چلا گیا۔اس وقت رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اور لوگوں کا ہجوم بھی اب بہت کم تھا جو طواف کعبہ میں مصروف تھے۔میری آنکھیں پھر سے چھلک پڑیں میں نے دوسری بار خانہ کعبہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی دلکشی میں کھو گیا۔کچھ دیر خانہ کعبہ کی نظریں گاڑے میں دیر تک آنسو بہاتا رہا اور پھر آگے بڑھ کر میں نے خانہ کعبہ سے کچھ ہی فاصلے پہ کھڑے ہو کر دو نوافل ادا کئے اور چھلکتی آنکھوں سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔اپنی زندگی کے پینتیس سال میں نے راہ راست منحرف ہو کر گزار دیئے۔اپنی ڈھلتی عمر دیکھ کر بھی میں نے فقط دنیا داری کو ترجیح دی۔میں سمجھتا تھا کہ شاید میں دنیا کے ان خوش قسمت ترین لوگوں میں شامل ہوں جن کو سب کسی محنت کے بغیر ہی مل گیا تھا۔مگر اللہ کے گھر آنے کے بعد مجھے ادراک ہوا کہ درحقیقت میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔

یہ دنیاوی عہدہ،یہ روپیہ پیسہ،یہ دنیاوی رشتے فقط عارضی ہیں جن کے لئے میں جی رہا ہوں۔اتنی محنت کر رہا ہوں۔میں اتنی دولت رشتہ داریاں جمع کر کے بھی تہی دامن تھا۔میرا دامن گناہوں سے داغ دار تھا۔دل گناہوں کی تپش برداشت نہ کر سکا اور سیاہ ہو گیا۔میں نے اپنی زندگی کے اتنے سال ان لوگوں کے نام کئے جو میرا فرض تھے مگر میں نے ان کا سوچتے سوچتے اس بات کو بھول گیا کہ جس نے مجھے یہ سب عطا کیا وہ رب بہت کریم ہے اور میں اسی کا محتاج ہوں۔میں نے دونوں ہاتھ چہرے پہ پھیر کر دعا مکمل کی اور احرام درست کرنے کے بعد خانہ کعبہ کا طواف شروع کر دیا۔اس وقت آسمان گہرے بادلوں سے ڈھک چکا اور طواف کعبہ شروع ہوتے ہی ہلکی ہلکی پھوار بھی شروع ہو گئی۔ایک اور رحمت جو مومنین پہ برس رہی تھی اور ان مومنین کی وجہ سے مجھ جیسا گناہگار بھی مستفید ہو رہا تھا۔یہ سعادت کیا کم تھی کہ خانہ کعبہ میں پہنچے ابھی چند گھڑیاں ہی گزری تھیں اور مجھ پہ اللہ کی رحمت کی بوندیں برس پڑیں۔میں بہتے آنسوؤں کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں مصروف تھا۔میں نے ابھی آخری چکر مکمل ہی کیا تھا کہ آگے کچھ فاصلے پہ ایک ستر سالہ بزرگ چلتے چلتے زمین پہ گر گئے۔میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر انہیں اٹھایا تو ان کی سانس پھول چکی تھی۔ان میں مزید چلنے کی سکت اب نہیں تھی میں وہاں موجود دو عمرہ زائرین کی مدد سے انہیں اٹھایا اور انہیں کچھ فاصلے پہ بیٹھا کر میں نے انہیں کندھوں سے پکڑ کر اپنے جسم کی ٹیک دے دی۔اس وقت بارش کی پھوار اب رم جھم میں بدل چکی تھی اور موسم بتا رہا تھا کہ بارش موسلادھار ہو جائے گی۔ان بزرگ کی آنکھیں متواتر بہہ رہی تھیں اور وہ مسلسل معافی مانگ رہے تھے۔

(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment