آج 15ستمبر کو عالمی سطح پر یوم جمہوریت منایا جا رہا ہے یونان سے شروع ہونے والا جمہوری نظام کا یہ سفر آج دنیا بھر میں رائج ہے کہیں یہ نظام اپنی پوری صلاحیت کو بروئے کار لاکر ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے اور کہیں جمہوری نظام اس قدر گراوٹ کا شکار ہے کہ ترقی اور خوشحالی تو درکنار لوگوں کو بنیادی حقوق بھی میسر نہیں اور یوں ان ممالک میں جمہوری نظام کے مقابلے میں مختلف تجربات جاری ہیں 78 سال قبل پاکستان بھی جمہوری سوچ کے ساتھ ہی دنیا کے نقشے پر ابھرا اور جمہوری سفر کا آغاز کیا مسلمانوں کا پاکستان کا نعرہ لیے پاکستان کا جمہوری نظام روز اول سے گراوٹ کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ اجارہ داری۔
چوہدراہٹ اور انا سے بھری وہ سوچ ہے جس نے پاکستانی جمہوری سفر میں ایسی بارودی سرنگوں بچھائیں جس سے جمہوریت لہو لہان بھی ہوئی اور دفن بھی ہوتی رہی رنگ برنگے نعروں کے ساتھ قومی اور صوبائی سطح پر جمہوریت کے نام پر جماعتیں بنتی رہیں مگر کسی ایک نے بھی جمہوری نظام کے مطابق اپنے اقتدار کو استعمال نہیں کیا اور رہتی سہتی کسر ” میرے عزیز ہم وطنوں ” کا ڈنڈا لیے فوجی حکمرانوں نے نکالی اور جمہوریت کو اپنے بوٹوں کے نیچے ایسا دبایا کہ پاکستان کی جمہوریت کا مطلب ہی تبدیل کر کے رکھ دیا اور پھر سیاسی اور جمہوری نظریات کے برعکس ” موقعہ پرستی ” نے لے لیا جو آج تک رائج ہے۔
پاکستانی جمہوری عوام کی آواز نہیں بلکے ایسا ” گٹھ جوڑ ” ہے جو کبھی پسند نا پسند کی صورت میں منظر عام پر آتا ہے اور کبھی کنگز پارٹیوں سے لیکر آرٹی ایس سسٹم کی خرابی اور کبھی فارم 45 اور 47 کے زمرے میں ملک میں رائج ہوجاتا ہے اس لیے اسے کسی صورت ” جمہوری نظام ” نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جس جمہور کے نام پر پاکستان میں جمہوری نظام رائج ہے اسے مسلط کیا جاتا یے نا کہ اسے عوامی رائے عامہ کے طور پر لیا جاتا ہے جس سے عوام کا اعتماد سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کے دعویدار لیڈروں سے ختم ہوچکا ہے۔
یہی عوام فوجی ڈکٹیٹروں کو بھی کوس رہی ہے جنھوں نے مارشل لگا لگا کر گٹھ جوڑ کی سیاست کو پروان چڑھایا پاکستانی جمہوری نظام ایک ایسا ڈھونگ یا ایک ایسا فریب ہے جو وفاقی اور صوبائی سطح پر عوام کے حقوق سمیت انکی ترقی اور خوشحالی پر قابض ہے جس کی عوام 78 سالوں سے متلاشی ہے مگر ہر بار یہ نظام انہیں فریب دیکرکسی نئے لارے کے ساتھ منظر عام پر نمودار ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے ایک مکمل اور درست جمہوری نظام ہی ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے جس میں عوام کی رائے مقدم ٹھہرے اسی سے قانون کا بھی بول بالا ہوگا اسی سے ترقی اور خوشحالی آئے گی اسی سے ایک مہذب معاشرہ بنے گا اور اسی کی بدولت ملکی ادارے فعال کردار ادا کرسکیں گے۔