وزیراعظم،وزیرخارجہ،وزیرخزانہ اور آرمی چیف صاحب امریکہ کے کامیاب دورے سے ابھی واپس ہی آئے تھے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان سامنے آگیا۔پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہونے کا الزام عائد کردیا۔اس بیان کی تصدیق وائٹ ہاؤس نے بھی کر دی۔حکومتی سطح پر پہلے خاموشی رہی وزیر خارجہ نے اس بیان کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینا چاہیے تھا۔
تین دنوں کے بعد کور کمانڈر کانفرنس کے بعد عسکری قیادت کا بیانیہ سامنے آیا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان کا ردعمل سب سے پہلے آیا اور پاکستان کے موقف کا مکمل اور جامع دفاع کیا۔ امریکی صدر کا بیانیہ درحقیقت انکے تھنک ٹینک کی نمائندگی کر رہا تھا۔امریکہ اور دیگر ممالک ہمارے ایٹم بم کو اسلامی بم کے نام سے گردانتے ہیں۔
عمران خان نے دو ماہ قبل ایک بیان دیا تھا،پاکستان کے دشمن ممالک ہمیں معاشی طور پر مفلوج کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے ایٹمی اثاثوں پر نظر جمائے بیٹھے ہیں۔ جس پر موجودہ حکومت کے وزیروں نے عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کر دی۔ملک معاشی گرداب میں پھنس جائے گا،معاشی بحران ایک وبا کی صورت اختیار کر جائے گا،لوگ ایک وقت کی روٹی کے لیے مجبور ہو جائیں گیں۔
ایسی صورتحال میں بدامنی،لاقانونیت اورافراتفری پھیل جائے گی۔ایسے میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ یہ جواز پیش کرے گی،پاکستان کا ایٹمی پروگرام دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ھے۔پوری دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔عراق جنگ سے پہلے اسی طرح کا ڈرامہ رچایا گیا تھا صدام حسین کی حکومت کے خلاف انکے پاس کیمیکل ہتھیار ہیں۔
جنگ مسلط کر دی گئی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد جب کچھ نہ نکلا تو امریکہ اور اسکا اتحادی برطانیہ نے معافی مانگ لی۔ عراق تباہ و برباد ہو گیا اور عوام آج تک جنگ تباہ کاریوں کا خمیازہ بھگت رہی ھے۔موجودہ صورتحال میں یوکرائن کی مثال ہم سے کافی مماثلت رکھتی ھے انہوں نے امریکہ اور نیٹو ممالک کی یقین دہانی کے بعد اپنے تمام ایٹمی ہتھیاروں کو غیر موثر کردیے اور آج انکا کوئی پرسانحال نہیں ھے۔
یوکرائن کی عوام آج یہ کہنے پر مجبورھے کاش ہمارے سیاستدانوں نے عقل سے کام لیا ہوتا توآج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔آج پاکستان بھی کم و بیش اسی صورتحال سے دوچار ھے۔ ہمارے اداروں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا 1971 کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار سے محروم رکھا اور آج عوامی ریفرنڈم کے بعد اکثریتی جماعت بار بار مطالبہ کر رہی ھے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا واحد حل فوری اور شفاف انتخابات ہیں۔
حکومت عوام میں اپنی ساخت اور اعتماد کھو بیٹھی ھے۔عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ھے۔مہنگائی اپنے عروج پر ھے۔حکومت نے خود کو این آر او دے دیا ھے تمام کرپشن کیسز ختم کر لیے ہیں اسکا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑھ رہا ھے مہنگائی کی صورت میں۔
دوسری طرف ملک میں دوبارہ دہشتگردی شروع ہو چکی ھے سوات میں عوام دہشتگردوں سے تنگ آچکے ہیں۔آخر کون ھے اور اسکے اشارے پر دہشتگرد باڈر پر لگی باڑھ تو توڑ کر ملک میں داخل ہو گئے ہیں۔ بلوچستان میں دوبارہ بی ایل اے سرگرم ہو گئی ھے۔انکو روکنے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔کورکمانڈر کوئٹہ کا ہیلی کاپٹر کا گرنا کوئی حادثہ نہیں تھا۔اسکی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی ھے۔
چار ماہ قبل امریکی کانگریس میں بلوچستان کا معاملہ زیر بحث آیا،وہاں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔پاکستان کی طرف سے خاموشی کا نوٹس عوام نے لیا ھے۔عوام کو بس ایک ہی امید کی کرن نظر آئی ھے عمران خان کی صورت میں۔انکا یقین ھے یہ وہ واحد لیڈر ھے جسے عوام اور پاکستان کی فکر ھے۔اس وقت ملک کا مقبول ترین لیڈر ھے جو پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ھے۔
عمران خان بار بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو وقت دے رہے ہیں مجھے مجبور نہ کریں لونگ مارچ کی کال دینے پر۔لونگ مارچ ہونے کی صورت میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔عوام تیار بیٹھی ھے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لیے اگر ایسے میں کسی تیسری قوت نے فائدہ اٹھا لیا تو ملک میں خانہ جنگی یا پھر مارشل لاء لگنے کے امکانات کو خارج از امکان نہیں کیا جاسکتا ھے۔
رجیم چینج کے نتیجے میں وہ لوگ برسرِ اقتدار آئے ہوئے ہیں جنکی ایمانداری اور وفاداری کو عوام شک کی نگاہ سے دیکھتی ھے۔امید کی کرن جو عمران خان کی قیادت میں نظر آرہی ھے۔ملک کو مکمل تباہی سے بچانے کا واحد راستہ صاف و شفاف انتخابات ہی ھے۔