راتیں دن میں اور دن راتوں میں ڈھلتے ڈھلتے ادلا بدلی کا ایک کھیل جاری رکھے ہوئے ہے،زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے اور ہم بھی بدلے ،بدلے ایسے کہ اب گھر گھر میں سیاست ہونے لگی،پہلے تو ساس بہو منہ پہ اور زبانی لڑ لیا کرتی تھیں یا زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے بال نوچ لیتی تھیں، اب ایسا نہیں، اب سب اچھا ہے،میٹھا بول اور منہ پر مسکراہٹ ہے، ہاں میں ہاں اور جی کو جی، مگر اندر ہی اندر سیاسی کھچڑی میں ابال زور و شور سے ہے، کیسے کس چال کو کب چلنا ہے اور کیسے کہاں چوٹ کرنی ہے کہ گویا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ادھار پیسے دے کر یا بریانی کی پلیٹ دے کر آس پڑوس کی عورتوں کو بھی اپنا گواہ بنا لیا جاتا ہے۔
اور جن حکمرانوں کا کام سیاست کرنا تھی وہ اب سیاست میں گالم گلوچ، بال نوچ اور بندے خرید و فروخت کرکے ساس اور بہو کا کردار بخوبی نبھاتے دکھائی د یتے ہیں،ٹیلی ویژن کی سکرین پر ہمیں اینکرز چیختے ہوئے اور سیاست دان ایک دوسرے پر کپ یا گلاس پھینکتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، گویا یہ گھر سیاسی تماشا خانہ اور پنڈال سیاست ساس بہو کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔
صرف یہی نہیں آج کل کی نسل فیشن کے عروج و زوال سے اپ ڈیٹ تو ہے مگر گھر کے حالات اور افراد سے نا واقف دکھائی دیتی ہے، پھٹی ہوئی جینز اور لوتھڑے دار شرٹ آج کل کی نوجوان لڑکیوں کو بوائے کٹ اور آنکھ کی بھنوئوں کے اندر لوہے کی تار پروئے ہوئے کہ گویا دور سے کوئی مرد آتا دکھائی دے، اور مرد حضرات رنگ برنگ کے جھلمل کرتے کھلے چولوں کے ساتھ گھنی زلفوں کو لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔
فیشن کی ایسی ادلا بدلی زمانے نے پہلے کبھی نہ دیکھی، پہلے ٹی وی ڈراموں اور کہانیوں میں والدین کا خوبصورت مثبت کردار گھر کے مسئلے سلجھاتا اور جوان بچوں کی اچھی پرورش اور شادی بیاہ کرتے دکھائی دیتا تھا جبکہ آج کل کے جوان بچے اپنے والدین کے لو افیئرز میں ان کی مدد کرتے اور والدین کو دنیا داری سکھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
گھر کی عورتیں نوکریوں پر جاتی ہیں اور مرد موبائل کی سکرینوں پر کھانا پکانے کی تربیت دینے والی ویڈیوز ریکارڈ کرتے دکھائی دیتے ہیں، معاشرے کی اس تیزی سے ہونے والی ادلا بدلی نہ جانے ہمارے اس ملک کو کہاں سے کہاں لے کر جائے گی اور کیا کیا موڑ لے کر آئے گی۔