پاکستانی معاشرے کا مرد زیادہ مظلوم ہے یا عورت
(8مارچ خواتین کے حقوق کے عالمی دن پر مہوش ظفر کی خصوصی تحریر)

ملک خداداد کا مرد تو بے چارہ اپنی مظلومیت کا رونا بھی نہیں رو سکتا کہ مردوں کا عالمی دن تو کوئی منایا ہی نہیں جاتا۔

حالات یہ ہیں اس کی مظلومیت کے کہ ہوم آفس بھی کررہا ہے،بچے بھی پال رہا ہے ،کسی دعوت یا محفل میں بیگم آواز لگاتی ہیں کہ سنئے

منے نے پیمپر گندا کردیا ہے ۔۔۔۔۔اور میاں جی سر جھکا کر ملتجائی نظروں سے بیگم کی طرف دیکھتے ہیں شاید کہنا چاہتے ہیں کہ بیگم کم از کم گھر سے باہر تو عزت رکھ لو

مگر بیگم صاحبہ بڑی ادا سے پہلو بدلتی ہیں اور میاں بے چارے سمجھ جاتے ہیں اور بچے کا پیمپر تبدیل کرنے دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔

تو کہیں بھری محفل میں بیگم صاحبہ بڑی ہی محبت سے سب کو بتاتی ہیں کہ بھئی میرے میاں نہ صرف گھر کے تمام کاموں میں میری مدد کرتے ہیں بلکہ بچوں کو نہلانا ،دھلانا بھی بہت اچھا کرتے ہیں۔

آج کی عورت کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ اصل میں وہ اپنے میاں بے چارے کی عزت کا کچرا کررہی ہوتی ہے۔اس کی عزت نفس مجروح کررہی ہوتی ہے۔

گو کہ گھریلو کام کاج میں مدد کرنا نہ منع ہے نہ برا ہے مگر بہر حال ہمارا شوہر /ہمارے گھر کا مرد ہمارے سروں کا تاج ہے اور تاج سر پر سجا ہی اچھا لگتا ہے عزت و وقار کے ساتھ۔

اس کی اچھائیاں ضرور گنوائیں مگر عزت بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ بہر حال اللہ نے مرد کو ایک درجہ فوقیت دی ہے ۔سارے گھر والوں کے رزق کا ذمہ دار تو تھوڑی عزت تو اسے بھی ملنی چاہئے۔۔۔۔۔۔بس تھوڑی سی۔

پاکستانی معاشرے کا مرد زیادہ مظلوم ہے یا عورت
Comments (0)
Add Comment