آج کا دن اپنے اندر ایک خاص قسم کی مقناطیسی طاقت رکھتا ہے،کہ جب بھی یہ ہندسہ بدلتے ماہ و سال اس دن کی طرف لوٹتے ہیں تو ایک شخص بہت یاد آتا ہے ۔ جو کہنے کو تو انسان ہی تھا لیکن دراصل وہ بہت نایاب انسان تھا ۔ اس کے بعد بہت آئے اور چلے بھی گئے لیکن جو وقت کو حرکت اس نے دی پھر اس کے بعد کسی نے نہیں دی ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ 23 مارچ ایک انقلاب کا دن تھا ، ایک عزم کا دن تھا ، ایک جنوں تھا جو اس وقت کی بے آسرا اور کسمپرسی کی ماری قوم کے اندر جاگا تھا اور پھر اس سوچ اس عہد نے ایسا کارنامہ ہائے انجام دیا کہ چشم فلک بھی حیران ہوگئیں ۔ اس وقت کے نوجوانوں نے اپنی منزل کو پانے کے لئے ایک قائد کی آواز پہ لبیک کہہ دیا تھا ۔ سات سال کی انتھک محنت رنگ لائی اور اس "گوہر نایاب”میرے ملک پاکستان کو دنیا کے نقشے پہ ابھارا ۔ لاکھوں شہیدوں کے لہو سے اس کی ہر کلی کو سجایا گیا ، کئی عصمتیں اس کی آفرینش میں تار تار ہو گئیں ۔ اس گلشن کو مہکانے کے عزم نے لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کر دیا ، کئی ماؤں کے خون سے رنگی یہ سر زمین جب آباد کی گئی تو اس کے پیچھے ایک ہی مقصد تھا کہ اس میں ایک خدا کی عبادت کی جائیگی ، ایک رسول کی اطاعت کو قبول کیا جائیگا اور مسلمان آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں گے ۔ اس میں ہر ایک کو بنیادی حقوق حاصل ہونگے ، کوئی کسی کا حق غضب نہیں کریگا اور اس کی بہترین مثال اس ملک پاکستان کے پہلے لیڈر نے خود اپنی زندگی سے پیش کی۔ کہ کبھی بھی ملک کے توشہ خانہ کا ایک روپیہ خود پہ خرچ نہیں کیا بلکہ اس کی ایک ایک پائی کا حساب رکھا ۔ وہ لیڈر نہ تو کوئی عام شخص تھا نہ یہ ملک جس کو خدا کے نام پہ اور اسکے نازل کردہ احکام کی پابندی کے لئے حاصل کیا تھا ۔ لیکن بہت دکھ ہو رہا ہے اس موجودہ پاکستان کی صورتحال دیکھ کر ، کیا یہ وہی ملک ہے جو اس شخص نے اپنی صحت اور زندگی کی پروا کئے بغیر اپنی جان کو ہزاروں بھیڑیوں کے نرغے میں دے کے جیتا تھا ۔ 23 مارچ 1940 کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ کیا عزم کیا تھا اس وقت کی عوام نے اور کیا نظریات تھے اس وقت کے لیڈران کے ، سب کی ایک ہی فکر تھی کہ اپنا تشخص بچا لیا جائے ، کیونکہ ان کے اوپر ایک نہیں بلکہ دو دو طاقتیں مسلط تھیں۔ انگریز کی غلامی سے نکلتے تو ہندو کی غلامی کا طوق ان کے گلے میں پہنا دیا جاتا اور یہ ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں چلے جاتے ۔ لیکن آج کا پاکستان دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ یہ وہی ملک ہے جس کا تصور اقبال نے پیش کیا تھا ، کیا یہ وہی چمنستان ہے جس کے لئے تگ و دو کی گئی ۔
گھر مرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ
اللہ نگہبان نشیمن کا خدا حافظ
آج میرا ملک آخری سانسیں لے رہا ہے ، بیرونی طاقتوں نے اس کی شہ رگ کو دبوچ لیا ہے ۔ یقین نہیں آتا تو خود جائزہ لے لیجئے ۔
آج میرے ملک کی سڑکوں پہ بالکل وہی خون آشام شامیں ہیں جس پہ موت کا راج ہے ۔ ہر طرف وہی آہ و فغاں ہے جو آج سے 72 سال پہلے تھی ، روز کسی نہ کسی کے گھر صف ماتم بچھی ہوئی ہے ۔ آج میرے ملک میں ہر طرف جاہ و حشمت کی ایک دوڑ نے انسان کو ایک حیوان سے بھی بدتر بنا دیا ہے ۔ ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے ۔ ہر انسان ایک دوسرے کے گریبان کو ہاتھ ڈالتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اقتدار کی ہوس نے ہر طرف ایک طوفان مچا رکھا ہے ۔ جس نے عورت کو عورت کے درجے سے نیچے گرا دیا ہے ۔ برابری کی اس دوڑ نے بیٹی کو بیٹی کے حق سے ہی محروم کر دیا ہے ۔ ایک طرف حجاب اتارا گیا تو دوسری طرف زبان اور آنکھ کی حیا بھی جاتی رہی ۔ سر عام ایوانوں میں خواتین کو گالی گلوچ کی جارہی ہے ، کوئی ان کی زبان پکڑنے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا ایک تماشہ بنا کے دکھا رہا ہے جو اپنے تو اپنے اغیار بھی میرے ملک میں ہونے والی تمام کاروائی کو دیکھ رہے ہیں۔
کہاں ہے ارض و سماں کا خالق
کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخ بشر کا
حسین غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے،
کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو میں تر ہے،
زمین جنازہ بنی ہوئی ہے
طاغوتی طاقتوں نے ایسا پھندا تیار کر دیا کہ اس ملک کی سالمیت کو بچانا اب ایک خواب نظر آ رہا ہے ۔
کل جن لوگوں نے قرآن کو ضامن بنا کر میرے ملک کی خدمت کو اپنا اولین مقصد ٹھہرایا تھا وہ غریب غربا کے ٹیکسوں سے جمع شدہ رقوم اور میری مملکت کے سپوتوں کا مستقبل داؤ پہ لگا کے سارے اثاثے لوٹ کر لے گئے ۔
سوچتی ہوں تو یہ سب باتیں سمجھ سے بالاتر لگتی ہیں کہ انھوں نے عوام کو تو ناراض کیا تو کیا ، دنیاوی دولت کے پیچھے خدا بھی ناراض کر بیٹھے ہیں۔
آج اگر "اقبال رحمۃ اللہ علیہ” یا "قائد اعظم محمد علی جناح ” اپنے اس ملک کو دیکھ لیں تو شاید ان کو اپنا وہ فیصلہ بہت غلط لگے ۔ لیکن وہ مرد مجاھد اپنے حصے کا کام کر گئے ۔
اب باری ہے اس ملک کے عوام کی ، اب ان کو ہوش کے ناخن لینا ہونگے ۔ ان کو اپنا آپ پہچاننا ہوگا کہ غلطی کہاں سے ہو رہی ہے ۔ ذرا غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ دامن اسلام ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور ٹھوکریں ہمارا مقدر بن گئیں۔ بات بات پہ جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے ، سر عام ایک دوسرے پہ بہتان تراشی کی جاتی ہے ۔ بے پردگی کا رواج عام ہے ، دیانتداری میرے معاشرے کے تاجروں کے خمیر سے نکل چکی ہے ، اپنا مال بیچنے کی خاطر بے جا قسم اٹھانا ایک عام بات سمجھی جاتی ہے ۔ دینی تعلیم کو دقیانوسی سمجھا جاتا ہے اور ان کے طالبعلموں کو بے عزت کیا جاتا ہے ۔ دہلیز پہ آئے فقیر کو دھتکار دیا جاتا ہے ۔ غریب ایک روٹی کے لئے ترس رہا اور کہیں صحرا میں ایک بوند پانی کو ترسا جاتا ہے ۔ اپنی جھوٹی انا اور خاندانی وقار کی بھینٹ ایک جیتی جاگتی بیٹی کو چڑھا دیا جاتا ہے ۔ آئینوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، عدالتوں میں اللہ کے ننانوے ناموں کے نیچے جھوٹے اور غلط فیصلے کئے جاتے ہیں۔
"ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں”
ملک میں بد امنی کی یہ فضا صرف اور صرف اقتدار کےلئے پیدا کی جا رہی ہے اور لوگ کسی معجزے کے انتظار میں ہیں کہ کب کوئی قائد جیسا ایک بہادر اور ایماندار لیڈر آئےاور اس ملک اور اس ملک کی عوام کو پھر سے اسی ڈگر پہ لے جائے جس کی وجہ سے اس کا وجود ممکن بنایا گیا۔
لیکن وہ ایک چیز بھول گئے کہ معجزے تبھی ممکن ہیں جب اس کےلئے خدا کو راضی کیا ہو ۔ جب خدا کی ناراضگی کو مول لے چکے ہو تو یہ انہونی نہیں بلکہ اپنے ہی کئے کی سزا ہے جو آج اس طرح کے حکمران ہم پہ مسلط ہیں ۔
آج 23 مارچ کے دن پھر سے اللہ کے حضور کھڑے ہو جائیں، عاجزی اور انکساری کے ساتھ کہ مالک ہماری انفرادی اور اجتماعی غلطیاں معاف فرما دے اور ہمارے ملک کا شیرازہ بکھرنے سے بچ جائے ۔ آج بھی اگر ان کے اندر ایمان کی روح بیدار نہ ہوئی تو یاد رہے کہیں پھر سے مسلمان کے ساتھ وہی تاریخ نہ دہرائی جائے جو ہسپانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی تھی ۔
ماشاء اللہ بہت ہی شاندار تحریر، پرمغز الفاظ میں اپنے موضوع پہ روشنی ڈالی، اللہ کریم علم و عمل میں برکتیں عطا فرمائے
Bhot khub mashallah……. Very good good.. Keep it up