طویل انتظار کے بعد آزادی ملی ، انتظار شروع ہو گیا ملک کا ستور کیا ہوگا ۔ اسلامی قوانین یا پھر جمہوریت اسی انتظار میں آمریت نے حکومت سنبھال لی۔انتظار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ، ملک دو لخت ہو گیا۔ آمریت اور جمہوریت کا کھیل چلتا رہا عوام انتظار ہی کرتی رہی کس کا ساتھ دیں۔ الیکشن ہوتے رہے ، مگر کسے معلوم تھا یہاں تو سلیکشن ہوتی ھے۔ الغرض مختصر قوم آج بھی انتظار کر رہی ھے، ملک کا کیا بنے گا ہمارا کیا ہوگا۔ اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت کا خاتمہ کر کے امپورٹڈ حکومت قائم کر دی گئی۔ایک بیان سامنے آیا ڈالر مستحکم ہو گیا ھے۔
مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آگئی عوام انتظار ہی کرتی رہی ہمارے حالات بدلیں گے۔سولہ ماہ بعد پتہ چلا عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کس بلا کا نام ھے۔ بجلی ، پٹرول اور ڈالر ایک صف میں کھڑے ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی تیاری شروع کر دی گئی ہیں ۔عوام انتظار کر رہی ھے انصاف دیکھنے کو کب ملے گا۔ انصاف صبح سویرے اپنا مکتب کھولتا ھے ، قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ھے۔ اسکے بعد وہی ہوتا ھے جو آج سے پہلے ہوتا چلا آیا ھے۔
بزنس مینوں سے طویل ملاقات ہوتی ھے ، ملک کی معاشی صورتحال کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔عوام کے انتظار کی امیدیں دم توڑتی ہوئی نظر آنے لگتی ھے۔ جب معلوم ہوا یہ بزنس مین وہی ہیں جنہوں نے آٹا، چاول ، بجلی ، گیس مہنگی کرتے ہیں۔ دس نکاتی فارمولا سامنے آتا ھے۔ ملک کو کیسے ٹھیک کرنا ھے، سوال تو یہ ھے پہلے اس بات کا تعین کیا جائے موجودہ حالات کو کس نے خراب کیا ھے۔ عوام انتظار کر رہی ھے کب قیدی نمبر 804 باہر آتا ھے صاف اور شفاف انتخابات ہوں۔ امریکی ایمبیسڈر الیکشن کمیشن سے ملاقاتیں کرتا ھے۔ اپنی ترجیحات سے آگاہ کرتا ھے۔
صدر صاحب مخمصہ کا شکار ہیں ۔ میں صدر ہوں بھی کہ نہیں، انکی بات سننے اور ماننے کو کوئی تیار نہیں ھے۔ جن قوانین پر دستخط نہیں کیے وہ قوانین بن گئے ہیں۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر ٹویٹ کرتے ہیں میں نے دستخط نہیں کیے ہیں۔ مزید یہ کہ معافی مانگتے ہیں جو لوگ اس قانون کی زد میں آئے ہیں۔ قیدی اپنی رہائی کے لیے بیماری کا ڈرامہ رچاتے ہیں ، کبھی پلیٹ لٹس کم ہو جاتی ہیں تو کبھی گر جاتی ہیں۔ علاج کے لیے اسکو پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر رہائی مل جاتی ھے بھائی ضمانت دیتا ھے چالیس دنوں میں علاج کروا کر واپس آئے گا علاج تو دور کی بات ہسپتال بھی نہیں گئے۔ مجال ھے قانون کے رکھوالوں نے سوال کیا ہو ، بلکہ اسکو وزیراعظم بنا دیا جاتا ھے وہ بھی اس دن جس دن اس پر فرد جرم عائد ہونی تھی وہ اسی دن حلف اٹھاتا ھے قانون اور آئین کی پاسداری کروں گا۔
قیدی نمبر 804 کے وکیل مقدمات کی پیروی کرتے ہیں ، اس دفعہ قیدی بیمار نہیں ہوتا ھے جج صاحبان بیمار ہو رہے ہیں۔ ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ھے، عوام انتظار کر رہے ہیں الٹی گنگا سیدھی کب ہو گی۔دس نکاتی فارمولا میں کہا گیا اسمگلنگ کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ایرانی تیل ایک لیٹر بھی کراچی میں فروخت نہیں کیا جائے گا۔ عوام سوچنے پر مجبور ھے کیا صرف کراچی میں ایرانی تیل فروخت نہیں کیا جائے گا۔ چھہتر سالوں سے عوام چھتر کھا رہی ھے صرف اس انتظار میں حالات بدلیں گے ہمارے بھی نصیب جاگیں گے۔ نصیب انکے جاگ رہے ہیں جو ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ چاہے وہ عوام ہوں یا سیاسی پارٹیوں کے سربراہان سیاستدانوں کے گھروں سے اربوں روپے برآمد ہو رہے ہیں، انکا کہنا ھے انتقامی کارروائی ہو رہی ھے۔
ایک بیان سامنے آتا ھے اگر ہمارے لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو اچھا نہیں ہوگا۔ قانون تماشا دیکھ رہا ھے قانون کے ہاتھ تو لمبے ہوتے ہیں بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں، مگر یہ کیا قانون کے ہاتھوں میں ہتھکڑی کس نے لگا دی ھے۔ کالے کوٹ والے وکلا حرکت میں آگئے ہیں تحریک کا آغاز کریں گے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں ہمارے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ بہتر تو یہی ہوتا پہلے کالی بھیڑوں کو پکڑتے۔ میڈیا سب اچھا کی صدائیں بلند کر رہا ھے، جو حکم میرے آقا آپ ہمارا خیال کریں ہم آپکا خیال کریں گے، امپورٹڈ حکومت نے اپنے مختصر دور اقتدار میں دس ارب روپیہ خرچ کیا تھا میڈیا پر۔ امیدیں دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں ، لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں عوام انتظار میں ھے ہماری باری کب آئے گی خودکشی کرنے کی۔