باپ کم نہیں میری ماں سے

زندگی کی تقریباً ۴ دھایاں گزارنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ باپ کیا ہوتا ہے ۔ ویسے اس بات میں ایک ذرے برابر بھی شک نہیں کہ اپنے والد کو ہمیشہ ہی اپنا پیر و مرشد مانا ہے۔لیکن حقیقت میں جان لینا اور صرف سن لینے میں کیا فرق ہوتا ہے یہ بھی آپ کے گوش گزار کروں گا ۔

ہر انسان زندگی میں بہت تلخ ادوار سے گزرتا ہے۔آج میں صرف ایک باپ کے بارے میں آپ سے آپ کی ہی کہانی بیان کروں گا۔ جو باتیں میں آپ سے شیئر کروں گا یہ آپ کی ہی کہانی ہو گی۔

کل والد گرامی کا ایک پیغام پہنچا کہ زندگی میں اچھا بھرا وقت آتا جاتا رہتا ہے اس لیے کبھی نہ گھبرانا اور اللہ ایسے ایسے انسان کے لیے راستے کھولتا ہے کہ وہ گو مان بھی نہیں کر سکتا ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے زندگی میں بہت سارے مشکل وقت دیکھے خاص کر کہ ۱۹۸۵ سے ۱۹۸۸ جب میں پاکستان میں بے روز گار رہا ، اور کیسے وہ وقت گزارا ، قرض لئے اور پھر ٹھیکیداری کی لیکن پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہوا اور پھر ملک سے باہر چلا گیا۔ وہ کہتے کہ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ وہ کتنا مشکل وقت تھا، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میرے والد نے اپنی تمام زندگی عرب کے صحرائوں میں گزاری ہے۔ جب وہ ۶ سال کے تھے تو ان کی والدہ جو کہ میری دادی تھی جن کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا ان کا انتقال ہو گیا تھا، اللہ ان کو جنت میں جگہ دے آمین۔ میرے والد ۱۰ بہن بھائی تھے اور اس کے بعد میرے دادا نے شادی نہیں کی وہ جنگلات کے محکمے میں فاریسٹ آفیسر تھے، اپنی زمینیں بھی تھیں اور ہر طرح کی فصل بھی اگائی جاتی تھی تو گزر بسر ہو جاتی تھی۔

میرے دادا کتنے عظیم انسان تھے وہ کہانی پھر سہی۔خیر بن ماں کے میرے والد کی زیادہ تر پرورش ان کی بڑی بہنوں نے کی اور پھر جب انہوں نے ہوش سنبھالا اور تعلیم کے بعد کبھی میرپور اور کبھی لاہور اور کراچی میں ملازمت کی۔ اس کے بعد ان کی شادی ہو گئی میری والدہ سے اور ہم ۳ بہن بھائی ہیں۔

شادی کے بعد پہلی اولاد ہوئی ایک بیٹا لیکن وہ بھی اللہ نے کچھ ماہ بعد واپس لیے لیا ، والدہ اکثر ہمارے اس بھائی کے بارے میں بتاتی تھیں ۔خیر مختصرا ًمیرے والد ۷۰ میں سعودیہ چلےگئے اور خوب محنت کی اور اپنی حیثیت کے مطابق اپنی فیملی میں سب کی مدد کی۔

ہمیں شہزادوں کی طرح پالا ، خاص کر کہ مجھے کیونکہ میں شروع سے ہی تھوڑا ضدی تھا اور جہاں میرے دوسرے بہن بھائی کو اگر ۱۰ روپے دیے جاتے تھے تو میں چھپ جاتا تھا اور ۵۰ روپے لیتا تھا۔

پھر میری والدہ کی بھی سرکاری ملازمت ہو گئی اور حالات بہتر سے بہتر ہوتے گئے۔ آج بھی مجھے یاد ہے کہ میں چھوٹا سا ہوتا تھا اور پانچ پانچ ،۱۰،۱۰ اور کبھی ۱۰۰،۱۰۰ کے نوٹوں کی گٹھی ہوتی تھی میرے پاس۔ وہ سب اللہ کے بعد والد کی اور والدہ کی مہربانی ہوتی تھی۔ میرے والد نےتقریباً اپنی تمام عمرگلف میں گزاری اور ۲۰۱۷ میں واپس گھر آ گئے۔ اللہ کا کرم تھا کہ ہم اس وقت تک خود اسٹیبلش ہو چکے تھے۔

ایک باپ اپنی اولاد کو سہولیات دینے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتا ہے، کبھی اپنی انا کو اور کبھی اپنی چمڑی بیچتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اور اپنی زندگی کے لمحوں کو بیچ کر آپ کے لیے خوشیاں لاتا ہے۔

جب ہم بچے ہوتے ہیں تو ہمیں باپ کا کچھ کہنا ناگوار گزرتا ہے لیکن جب ہم خود باپ بنتے ہیں اور اسی قرب سے گزرتے ہیں جس سے ہمارے والد گزر چکے ہوتے ہیں پھر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آج جو ہم اپنے والدین اور اپنی اولاد کے لیے کر رہے ہیں یہ سب کچھ اور آج سے مشکل حالات میں ہمارا باپ کر چکا ہے۔

آج جب میں خود ۳ بچوں کا باپ ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میرے والد زندگی کی کن تلخ گلیوں سے گزرے ہوں گے اور اس سب پر المیہ بھی ہے کہ مرد کسی سے بہت کچھ کہہ نئی سکتا اور ہر طرح کا ذ ہنی ، جسمانی اور جز باتی بوجھ اکیلا ہی اٹھاتا ہے ۔ وہ خود کو قربان کر دیتا ہے۔

آج اگر آپ دنیا بھر میں دل کے امراض کے مریض دیکھیں اور دل کی اور دماغ کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو دیکھیں تو وہ زیادہ تر مرد ہی ہوں گے۔

لیکن آج کا باپ جو کر رہا ہے وہ بھی ایک سوال پیدا کرتا ہے،میرے دادا گھوڑے پر اور پیدل چلتے تھے، میرے والد نے موٹر سائیکل اور گاڑی رکھی تھی۔ میں مرسیڈیز اور اوڈی چلاتا ہوں میرے بچے فراری اور لیمرگینی چلائیں گے اور شاہد ان کے بچے پھر پیدل چلیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بہت زیادہ پیمپر کر رہے ہیں ، مشکل وقت سے جو گزرتے ہیں وہ لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور مضبوط لوگ آسان وقت لاتے ہیں اور آسان وقت سست لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور سست لوگ ترقی نہیں کر پاتے۔

آج سے ۳۰ سال پہلے یہ سنا تھا کہ سونا آگ سے گزرتا ہے تو کندن بنتا ہے ، کیا ہم آج اپنے بچوں کو اتنی آسانیاں دے کہ ان سے زیادتی تو نہیں کر رہے؟ہمیں ہمارے والد نے سونے کا نوالہ کھلایا لیکن دیکھا ہمیشہ شیر کی نظر سے۔

آج کا باپ اپنے دور کے مشکل ترین وقت سے گزر رہا ہے۔ اس کو ہمارے بڑوں کی نسبت زیادہ چیلنجزکا سامنا ہے اور جو لوگ ویسٹ میں رہتے ہیں وہ تو بچوں پر قانون کی وجہ سے کسی طرح کی سختی بھی نہیں کر سکتے۔ آج کے بچوں کو اور خواتین کی ڈیمانڈز بہت زیادہ ہیں۔ وقت بھی ان کو چاہیے اور سہولیات بھی۔ والد وہی وقت ہی بیچ کر گھر والوں کے لیے سہولیات لاتا ہے۔ پھر وقت کہاں سے دے؟ یہ کچھ شاہد ہمارے بڑوں نے فیس نہیں کیا۔باتیں بہت تفصیل سے کرنے والی ہیں جو اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔

بس بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے والدین کا قرض اپنی جان دے کر بھی نہیں اتار سکتے، جو حق ان کا ہم پر ہے وہ حق ہم پر اللہ کے بعد سب سے زیادہ ہمارے والد اور والدہ کا ہے۔ ہمارا جو کچھ بھی ہے، مال ودولت وہ سب ہمارے والدین کا ہے۔

اللہ میرے اور آپ سب کے والدین کو صحت والی لمبی زندگی دے۔آمین۔ اور آج کے دن ہی میری زندگی میں میرا بیٹا محمد ریحان جو آج ۱۳ سال کا ہوا ہے پیدا ہوا۔ اس نے بھی بہت کچھ مجھ سے سیکھا ۔ باپ جنت کا دروازہ ہے اگر ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے۔

والد جب سختی کرتا ہے تو ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے،لیکن وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر بہتر جانتا ہے ہم سے۔ جو اس نے اپنی زندگی میں سیکھا ہوتا ہے۔ اس لیے والد کو کبھی غلط نا سمجھنا اور آپ کا سب سے بڑا دوست اور خیر خواہ ہوتا ہے۔ساری دنیا چھوٹ جائے لیکن والد اور والدہ نہ چھوٹ پائیں ۔اللہ ہم کو اپنی دنیا اور آخرت کے لیے اپنے والدین کے فرمانبردار بچے بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

باپ کم نہیں میری ماں سے
Comments (0)
Add Comment