میں بڑے عرصے سے پریشان تھا کہ روزے تو اللہ تعالیٰ نے فرض کر دیے 29 یا 30 لیکن یہ پکوڑے اس قدر اہتمام سے کھائے جاتے ہیں کہیں یہ تو فرض نہیں ہو گئے تھے ۔ اب پاکستان کے بڑے صوبے کی بڑی وزیراعلیٰ نے بھی صرف انہی کی خواہش کی ہے ،سچی بات ہے کہ میں بھی پکوڑوں کا خواہش مند ہوتا ہوں اب رمضان کی باتیں یاد آگئی ہیں تو جاوید میاں داد نے جب ایک چھکا لگایا تھا تو اس وقت وہ ہمارے پاس مدینہ منورہ میں آئے تھے کیونکہ شمیم بھائی ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے ،وہ شمیم الحق کے دوست جو الجمع کمپنی میں پارٹس منیجر کا کام کیا کرتے تھے۔
ہم چھڑوں کا ایک رہائش یونٹ تھا چھٹی منزل پہ ایک گھر میں رہتے تھے تو جاوید میاں داد بھی وہاں چھکا مار کے آئے تھے تو ان دنوں اجازت ہوتی تھی رمضان شریف میں اندر روزہ کھولنے کی تو ہم نے اپنا ایک سفرہ لگایا ہوا تھا ،جہانگیر صاحب ہمارے ساتھی تھے وہ دسترخوان لگایا کرتے تھے تو ہم بھی لوگوں کو اپنے اپنے دسترخوان پر لاتے تھے ہماری خواہش تھی کہ ہمارے دسترخوان پہ یہ اپنا مہمان آئے بڑے مہمان بھی آئے ۔میری اور جہانگیر صاحب کے چھوٹے بھائی نئے مغل جو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ان کی ڈیوٹی یہ ہوتی تھی کہ ہم دہی گھر سے اٹھا کے لائیں تو تقریباً 30 ڈبے 40 ڈبے میرے پاس ہوتے تھے وہ اسی طرح نعیم کے پاس بھی کچھ چیزیں ہوتی تھیں تو میں مدینے کی گلیوں میں آواز لگایا کرتا تھا، افطار سے پہلے کہ رنگ بڑھیں گے دہیں تو یہ بڑا مشہور ہو دیتا تھا لوگ سنتے تھے کہ بھئی یہ کون آ رہا ہے اور پاکستانی یہ کہہ رہا ہے کہ رنگ برنگیں دیں تو یہ میں وہاں جو آج کل تو مسجد کا حصہ ہی بن گئے ہیں وہاں پہ اپنے گھر سے لے کے وہاں پہ جایا کرتا تھا جہاں پہ اسلام آباد ہوٹل ہوا کرتا تھا تو ایک دفعہ یہ ہوا کہ جیسے ہی میں پہنچا اس کے دروازے پہ حرم کے دروازے پہ تو وہاں پہ ایک بندہ لمبا تڑنگا اس نے عجیب و غریب قسم کا لباس پہنا ہوا اور کلر تھا اس کا بالکل نارنجی اور ٹوپی پہنی ہوئی تو میں نے جا کے پاس ہی وہ جا کے پتہ کرا لیا کہ یہ تو بندہ وہ ہے جو تاجدار حرم گاتا ہے اور جو بات مس کی آواز نکلتی ہے اللہ تو میں نے اس کو پہچان لیا تو انہوں نے مجھے کہا او بھائی اگر تم نے مجھے پہچان لیا تم برائے کرم شرطے سے میری جان چھڑا دو اچھا اب شرتا جو ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے اس کے بال کاٹنے ہیں کیونکہ بال بڑے لمبے تھے اس کے تو اپنے لوگوں کو تو وہ کاٹ نہیں سکتے ہمارے اوپر بھی سارا وہی چلتے ہیں تو میں نے بڑی مشکل سے اجازت لی اتنے میں اذان ہوگئی تو پھر ان کو میں اپنے سفر پہ لے کے جا کے ان کا روزہ کھلوایا۔
ان لوگوں میں اداکار شکیل بھی تھے اور جاوید میاں داد بھی ایک دن انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ پکوڑا کھانا ہے اچھا مسجد میں پکوڑا لے جانے کی اجازت نہیں تھی صرف اور صرف ایک دہی اور ایک کاک وہ روٹی ہوتی ہے گول سی وہ لے جانے کی اور ساتھ میں ایک دکا جو ایک مصالحہ ہوتا ہے جو جنہوں نے کھایا ہے بہت زبردست اس کو سمجھتے ہیں حافظ عبدالعزیز بھی بعد میں تراویح کی نماز کے بعد زبردست وہ کاوہ اور بڑی چیزیں لوگوں کو کھلاتے تھے اور آج کل بھی ماشاءاللہ وہ بہاولپور میں ہیں اور مسلم لیگ نون کے صدر بھی رہے ہیں اس ایریا میں مدینہ منورہ میں جب رہا کرتے تھے تو ماشاءاللہ آموں کے سیزن میں وہ انور رٹور جو انہوں نے دو تین لگا رکھے ہیں پودے ان میں سے مجھے بھی بھیجتے ہیں ایک دو سال سے نہیں بھیجے پتہ نہیں میں بیمار ہو گیا تھا یا اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں رہی تھی تو یار تو ہمارے بڑے ہیں ۔
ہمارے مہمان کی خواہش یہ ہے کہ پکوڑا انہوں نے کھانا ہے انہوں نے شمیم بھائی کو کہا کہ یار پکوڑا کھا سکتے ہیں اندر کہتے ہیں اندر تو اجازت نہیں ہے لیکن ہم نے ایک حل نکالا ہمارے پاس ایک کام کرتے تھے ان کا نام حلیم تھا وہ ڈینٹر ہیلپر تھے اور حسینی میں ہم کام کیا کرتے تھے تو جنرل موٹر کی ایجنسی ہے اور حضرت عثمان کے کنویں کے پاس ہی جنرل موٹرز کی ایجنسی ہے ہم نے انہیں کہا کہ یار کیسے لے جائیں گے ان کی شلوار میں ایک جیب تھی انہوں نے کہا جی میں لے جاؤں گا تو اس دن جناب گرم گرم پکوڑے ان کی شلوار والے جیب میں ہم نے ڈال دیے بہرحال تکلیف تو ان کو بہت ہوئی لیکن پکوڑے افطار سے پہلے حرم میں پہنچ گئے افطار ٹائم کے اوپر ہم نے وہ پکوڑے نکال کے ان کے سامنے رکھ دیے تو یہ ہمارے مہمان کی خواہش پوری ہوئی اور یہ اتنی چھوٹی سی بات مجھے کیسے یاد آگئی ۔
آج مریم بی بی نے بھی پکوڑا مانگا ہے اب دیکھیں انہوں نے روح افزا نہیں مانگا کوئی دودھ سوڈا نہیں مانگا ،یہ ہماری اتنی غریب پرور وزیراعلیٰ ہے جس نے غریبوں کا کھانا اور پکوڑا مانگاورنہ تو آج کل تو لاہوری تو ماشاءاللہ بہت سپرنگ رول کچوریاں تو ان کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے تو آج کے دن جناب عالی صرف پکوڑے کی شان میں کچھ کہا جائے گا اگر آپ کو پکوڑے اچھے لگتے ہیں تو میرے اس کالم کو برداشت کیجئے آج ہم نے اس ربیعہ کے ساتھ روزہ کھولا ہے ربیعہ آئی تھی ہمیں سعودی عرب روانہ کرنا ہے تو پتہ چلا کہ آج گاؤں میں ایک ختم قر آن ہے ایک وہاں ختم قرآن ہو رہا ہے تو وہاں گئی ہیں اور ان کی امی نوید اور اس کی مسز تو یہاں ہم دونوں نے آج روزہ کھولا تو آج اتفاق کی بات ہے مریم صاحبہ نے بھی پکوڑا مانگا ہے اور ہم بھی ربعیہ سے یہی پکوڑا مانگا ہے اور اپنے کک سے کہا کہ بھئی پکوڑے ذرا ٹھیک ٹھاک بنا لینا۔
اچھا پتہ کیا ہے پکوڑوں کو کھانے کی ایک بڑی وجہ ہے اب مجھے پتہ چلا ہے اسی کالم کے لکھنے کے دوران کہ پکوڑے فوجیوں کو بہت پسند ہوتے ہیں کوہ کنی کے کپ میں چائے کے ساتھ پکوڑے فن کی قومی چائے ہے شاید مریم کو بھی اسی لیے پسند ہیں ،وہ آج سے نہیں زمانہ قبل از نو مئی سے انہیں اچھے لگتے ہیں ۔
پہلی بات تو ان کا خاوند جو ہے وہ بھی کیپٹن تھا اور جن دنوں میں وہ یہاں پہ رہتے تھے جاتی عمرہ میں ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہوتی تھی تو وہ بھی پکوڑے کھاتے تھے اور خوب پیٹ بھر کے پکوڑے کھایا کرتے تھے حالانکہ پکوڑے کھانے کا نقصان بھی ہوتا تھا، وہ تو ہمیں سرو پیلس میں پتہ چلا جب ان مریم کتابوں کی جلدیں بندھوایا کرتی تھی میاں شریف ود آؤٹ پے ان سے کام لیا کرتے تھے ، بلکہ میری خواہش ہے کہ یہ پکوڑے کو قومی ریفریشمنٹ قرار دیں
اور میں محترمہ مریم بی بی سے یہ خواہش کروں گا کہ ان پکوڑوں کو اگر آپ نے اتنی عزت دے ہی دی ہے تو اس کو ایک غریبی افطار کا ایک جز قرار دیں ویسے پریشانی ہے کہ ہماری وزیراعلیٰ محترمہ اتنی شوٹنگ دیکھو کیسے ٹائم بچا لیتی ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ پر ظلم و ستم کے احکامات جاری کر سکیں یا انہوں نے ڈی آئی جی پنجاب کو اور آئی جی پنجاب کو شاید اس کام پہ لگا رکھا ہے کہ وہ اٹو پہ ہیں کہ جہاں بھی پاکستان تحریک انصاف کا کوئی کارکن نظر آئے، کوئی جھنڈا نظر آئے تو کچل کے رکھ دے ویسے پوچھیں تو یہ دور جس سے ہم گزر رہے ہیں اس کا کوئی جوڑ نہیں ہے جلن والا باغ میں بھی شاید اتنے لوگ مارے نہ گئے ہوں جو زمانہ افٹر نائن میں مارے گیا لوگ یاد کریں گے کہ کسی وقت ہم کہتے تھے اس زمانہ قبل از مسیح اب تم مسیح کو بھول جائیں اپ زمانہ قبل از نائن میں کی بات کریں ہم کس دیس میں زندہ ہیں کس جگہ رہ رہے ہیں کہ لوگوں کو کوئی قانونی راستہ ہی نہیں مل سکتا کہ وہ اپنی آواز بلند کر سکیں میں تو خود چاہتا ہوں کہ میں پنجاب چھوڑ دوں اور کے پی کے چلا جاؤں کیونکہ بنیادی طور پہ معیاری پور کا ہی رہنے والا ہوں اور کسی نے کہا تھا میں پنجاب نہیں جاؤں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو پتہ تھا کہ پنجاب میں اس طرح کا طرز حکمرانی ہوگا کہ جیسے مسلمان سکھا شاہی کو بھی بھول جائیں گے مجھے غصہ نہیں آتا غصے سے کوئی اوپر والی چیز آتی ہے کس بات کو لے کر ہم کعبے جائیں گے اور جب یہ جائیں گے تو کعبے سے کیا آواز آئے گی کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی کہ آپ پنجاب کا آئی جی طواف کر سکے گا کیا مریم بی بی انہی راستوں پہ دوڑ سکیں گی جن راستوں پہ ہاجرہ دوڑی تھیں آپ کو وہ رونا یاد نہیں ہے جو کثرت دیافہ مکہ اور مکرمہ میں آپ رو رو کے پاکستان جانا مانگ رہی تھیں۔
کیا آپ کو یاد نہیں ہے شہباز شریف صاحب آپ وزیراعظم بنے ہیں تو ایک پنجاب ہوٹل میں وہ نیلا کرتا اور نیلا لاچہ پہنا ہوا جو بزرگ بنا ہوا تھا اور اس کو آپ کہہ رہے تھے کہ چار مہینے ہو گئے ہیں ابھی آپ نے تو کہا تھا چار مہینے کے اندر اندر پاکستان واپس چلے جائیں گے تو کیا آپ کو رونا بھول گیا ہے جب میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خبر آئی تھی کہ ساہیوال میں کسی لڑکی نے شہباز شریف کو پکارا ہے تو آپ نے کسی راشد کے تھرو 50 ہزار روپے اس کو بھجوائے تھے اگر وہ وقت گزر گیا ہے نا تو عمران خان پہ اوپر یہ وقت بھی گزر جائے گا ہمارے اوپر یہ وقت بھی گزر جائے گا چار مہینے گھر سے باہر رہا وہ انجینیئر افتخار چودھری جس کے بارے میں آپ نے یہ کہا تھا کہ نواز شریف صاحب آپ کہہ رہے تھے کہ آپ نے میرے اوپر احسان کیا اور 2013 میں آپ نے یہ کہا تھا ٹیل می انجینیئر افتخار چودھری تو میس سروس نہیں مانگتا جناب اگر آپ کے بس میں نہیں ہے تو کہہ دیں کہ ہم نہیں کر سکتے آپ خدیجہ شاہ کو نہیں نکال سکے، نا آپ بیگم یاسمین راشد کو نہیں نکال سکے نا کہہ دیجیے کہ ہم بے بس ہیں ہم اس قابل ہی نہیں ہے تو پھر جانے دیجیے ہم مکہ میں جائیں گے غلاف کعبہ کو پکڑ کے یہ دعا مانگیں گے یا اللہ پاک اس کا بیڑہ غرق کر جس نے پاکستان کا بیڑا غرق کیا اور پاکستان کے لوگوں کی زندگی عذاب میں ڈال دی۔
شاید اگر نہیں تو ان کو پکوڑے ضرور دیے جائیں اور ہاں ایک اور یہ بات ہے کہ محترمہ یہ ذرا تھوڑا سا رمضان میں خیال کریں کہ افطار کے وقت یہ جو آپ کے ساتھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں کیمرہ والے ہوتے ہیں، بیچارے اور سکیورٹی کے بندے ہوتے ہیں کم از کم 50 60 تو بندے ہوں گے تو آپ مہربانی کر کے انہیں کچھ گھر انہوں نے روزہ رکھا ہو تو ان کو پہلے کھجور دے لیا کریں تو آپ کھجور سے زیادہ پکوڑا پسند ہے تو یہ بھی ان کو ایک دو پکوڑے دے دیا کیجیے اور کیا خوب کسی نے کہا تھا کہ بھئی آپ تو جب نکلتی ہیں تو آپ کے ساتھ چار چھ سہیلیوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جیسے ہیروئن باغ میں ناچتی ہوئی آتی ہے فردوس آتی ہے، اس کے ساتھ چار چھ ایکسٹرا ہوتی ہیں جو آہو نی آہو کہہ کے آپ کی آواز کو آگے بڑھاتی ہیں۔
یہ ایک اور بات بھی ایسے ہوا تھا کہ بھئی یہ کہاوت تھی کہ بھئی آؤ نہیں سہیلی ہو کپا چگن چلیے اگوں ایا گدڑ پچھا موڑ چلیے تو آپ تو ڈرتی ہیں گیدڑ سے بھی ڈرتی ہیں تو اپنے ساتھ جو چھ سات یہ کیمرے والے ہیں 50 60 سکیورٹی والے ہیں تو ہر روز آپ مہنگے سے مہنگا سوٹ پہن کے سامنے آتی ہیں تو ان لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کریں کہ یہ سوٹ تو میں ضائع نہیں کرتی میں مریم کو دے دیتی ہوں تو ظاہر بات ہے آپ غریبوں کا ساتھ دیتی ہیں اور آپ کا لگتا بھی ہے آس پاس کے لوگوں کے اوپر صدقہ خیرات دی جائے جس طرح کہتے ہیں کہ اول خیش بہ درویش تو آپ لوگوں کی خاندانی جو نرسیں ہیں ان کا زیادہ حق بنتا ہے تو لہٰذا ہمیں اس بات پہ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ آپ انہیں یہ موقع دیتی ہے نہیں البتہ آج کل وہ ایک ثانیہ عاشق نامی ہوا کرتی تھی جو آج کل نظر نہیں آر ہیں ،ان کے بارے بھی ہمیں بتائیے کہیں وہ پکوڑے کھانے کے لیے کسی اور دسترخوان کو رونق تو نہیں بخش رہی زندہ باد پکوڑا زندہ باد۔