پاکستان میں ماہ مقدس کاروباریوں کا سیزن بن گیا

پاکستان کو معرض وجود میں آئے 76 سال 7 مہینے 6 دن ہوگئے ہیں اور اسے تشکیل پاتے ہوئے دیکھنے والی نسل اب رخصت ہورہی ہے جو ماہ رمضان المبارک میں اسلام کے نام وجود میں آیا اور قرآن وسنت کے عملی نظام کے نفاذ کا اللہ سے عہد کیا گیا تھا۔ لیکن 76 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ذخیرہ اندوز متحرک ہوجاتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ حکومت جو بھی ہو وہ صرف رمضان پیکیج کا اعلان کر کے یوٹیلیٹی اسٹور ز میں چند اشیاء پر سبسڈی دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے ۔

ہر رمضان میں انتظامیہ عوام کو مہنگائی کے سیلاب سے بچانے کے دعوے تو کرتی ہے مگر گراں فروشی اور مہنگائی پھر بھی کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ دکاندار، تاجر اور خوردہ فروش شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرپاتی۔ لہٰذا ماضی کی طرح تاریخ اس بار بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سیلاب کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے۔پاکستان میں جونہی رمضان شروع ہوتا ہے۔ کھانے پینے والی اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جبکہ مشرق وسطی، یورپ اور امریکہ میں رمضان کے مہینے میں ان اشیاء کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک اپنے مسلم آبادی کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے اشیائے خوردونوش کی درآمد بڑھا دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی قیمتیں گر جاتی ہیں۔

جب کہ پاکستان میں ان اشیاء کی قیمتیںبے تحاشہ بڑھ جاتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ عام طور پر دوکانداروں کو اس کا موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ ناجائز منافع خوری کرتے ہیںاور عوام کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔مہنگائی اور گراں فروشوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے، عوام کا کہنا ہے کہ نگران حکومت نے بجلی اور گیس کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ کر کے ان کی زندگی اجیرن کیے رکھی اب منتخب حکومت کے دور کے میں ہی مہنگائی کے نئے طوفان نے دہری اذیت کا شکار کر دیا ہے۔عوام نے شکوہ کیا کہ ملک بھر میں ناجائز منافع خور بے لگام ہو گئے ہیں، اور من مانے ریٹ وصول کر رہے ہیں اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات نظر نہیں أتے اور یہاں پر کوئی نہ رول ہے نہ ریگولیشن ہے اور جو ہے وہ جو اوپر سے چلا ہے وہ نیچے تک سرایت کر کے آئے لوگوں میں اور ہر آدمی کہتا ہے کہ میں کیا کروں میں پیچھے سے چیز ایسی ملتی ہے اور عوام کے اوپر یہ بوجھ پڑتا ہے لوگوں کے لیے سحر اور افطار کرنا مشکل بنا دیا ہے اور جہاں پر لائنیں لگتی ہےوہاں جاکرلوگ سستی چیزیں لینے کے لیے پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

اس میں بعض لوگ مینج نہیں کر پاتے اور واقعات رونما شروع ہو جاتے ہیں جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اپ دیکھیں لوگوں کے ساتھ کیا کر دیا ہے جو ہمارا حق ہے وہ ہمیں خیرات کے طورپر دیا جاتا ہے۔بنیادی چیزیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور جو پرائس کنٹرول کمیٹیاں کیا کرتی ہیں یہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کیا کررہے ہیں سب سے اہم ذمہ داری پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ہے ۔جن کے قیام کا مقصد ہی قیمتوں پر نظر رکھنا ہے۔ مگرپاکستان میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی غفلت ، لاپروائی اور رشوت لینے کی وجہ سے دکانداروں سے لے کے ریڑھی والا ہر کوئی مرضی کی قیمت وصول کررہا ہوتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ قیمت کنٹرول کرنے والے اپنی ذمہ داری اور اس کے معاشرتی اثرات سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوںکے آفیسر مارکیٹوں سے ہفتہ یا دیہاڑی وصول کرتے ہیں اور انہیں من مرضی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں ۔انہیں نہیں معلوم ہوتا کہ جس دکاندار سے وہ ہزار روپیہ رشوت لے رہے ہیں وہ چیزیں مہنگی بیچ کے لوگوں سے لاکھوں روپے زیادہ وصول کرے گا ۔

وہ یہ نقطہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی لالچ ،غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے عوام کو روزانہ کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔صحافی دوست کہتے ہیں کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ارکان اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہی فعال ہوتے ہیں۔ ان کمیٹیوں کے لوگوں کا مقصد خدمت عوام نہیں بلکہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے اور بھتوں کا نظام یہاں پر موجود ہوتا ہے ۔جگہ جگہ پیسے پکڑ کر نیچے عملہ موجود ہوتا ہے پولیس والے ہوتے ہیں وہ عملہ جو پیسہ اپنے جیب میں ڈالتا ہے اور لوگوں کو وہی پرانی پرائز پر چیزیں ملتی ہیں اب ظاہر ہے یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے یہ کام ہر بندہ سیاسی تنظیم یا ارگنائزیشن نہیں کر سکتی۔چاہیے یہ تھا جگہ جگہ ہر سٹی ہر شہر میں بچت بازار لگائیں لگانے چاہیے سستے بازار لگانا چاہیے فری میں بھلا نہیں دے زکوۃ خیرات کا سسٹم نہیں کریں البتہ نو لاسٹ نو پرافٹ 30 پرسنٹ تک سبزیوں کو پھلوں کو دینے کی کوشش کرنی چاہیے کچھ پرائیویٹ جماعتیں پارٹیاں بھی ہے جو قربانیاں اور وقت دے رہی ہیں اس رمضان المبارک میں کھڑے ہوتے ہیں اللہ پاک ان کو اجر دے گا لوگوں کی خدمت مختلف جگہوں پر کر رہے ہیں اسطرح وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ’’نگہبان رمضان پیکج‘‘ پروگرام سے لاکھوں مستحق خاندانوں کو کم قیمتوں پر راشن مہیا کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کا حکم جاری ہوا ہے کہ رمضان میں کسی قسم کی ذخیرہ اندازی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔پر رمضان پیکج، ذخیرہ اندوزی وغیرہ کے حوالے سے عوامی شکایات کے اندراج کیلئے ہیلپ لائن بھی قائم کردی گئی ہے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھی غریبوں کے لیے سستی چیزیں مہیا کی جارہی ہیں۔اس بار ز کوٰۃ و خیرات کے مستحقین کے لیے تو یوٹیلٹی سٹورز پر چیزوں کے نرخ کم ہیںلیکن عام شہریوں کو وہاں سے بھی بازار کے حساب سے گھی،دالیں،چاول اور صابن وغیرہ مل رہا ہے۔بدقسمت سے پاکستان میں بسنے والے روزے دار روزے کی بھوک پیاس و گرمی سختی سے نہیں مہنگائی سے بلکتے رہتے ہیں اس لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے اقدامات کا اعلان کرے اور جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین اقدامات کیے جائیں ۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کی روک تھام کے لیے مرکزی کردار ادا کروایا جائے اور حکومتی عملداری یقینی بنائی جائے کیونکہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں ملک بھر میں مہنگائی کے عذاب پر قابو پانے کے لیے نہ صرف راست اقدامات کیے جائیں بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی سے بچانے کا موثر بندوبست کیا جائے۔تاکہ غریب عوام بھی ماہِ صیام میں نیکیاں، روزہ کے روحانی اور ایمانی ثمرات سمیٹ سکیں تاکہ أخرت میں روزے دار کوباب الریان سے پکارا جانے کی سعادت نصیب ہوجائے۔ اورجولوگ اپنےرب سے ڈرتے اورتقوی اختیارکرتے تھے ان کے گروہ گروہ جنت کی طرف روانہ کیے جائيں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئيں گے اوردروازے کھول دیۓ جائيں گے اوروہاں کے نگران ان سے کہيں گے تم پرسلام ہو ، تم خوش رہو تم اس میں ہمیشہ کے داخل ہوجاؤ الزمر ( 73 ) ۔

ماہ مقدس
Comments (0)
Add Comment