پاکستان کی جمہوریت سیاست دانوں اور اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں ایک کھلونا بن کر رہ گئی ہے جس پر دونوں اطراف سے ” بچوں ” کی طرح ایک دوسرے سے کھلونا چھینے کی کوشش کی جاتی ہے ایک فریق عوام کی ترقی اور خوشحالی کا باجا بجا رہا ہے اور دوسرا ملک اور عوام کی سالمیت کا ڈھول پیٹنے میں مصروف ہے اگر دیکھا جائے تو دونوں ہی اپنے نعروں اور دعووں کے برعکس چل رہے ہیں جس سے نا تو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی ممکن ہو پا رہی ہے اور ناہی سالمیت کو ممکن بنایا جا رہا ہے۔
بس دونوں جانب ایک سوچ کارفرما ہے کہ ” ایک دوسرے کو نیچا کیسے دیکھانا ہے ” اور یہاں بھی یہ کتنی ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو گراتے گراتے ملک کو ” ڈاواں ڈول ” کر بیٹھے ہیں پاکستان دنیا کا یقیناً اس وقت تیسری دنیا کا واحد ایسا ملک ہوگا جس کے ہاں جمہوریت اور سالمیت کے نام پر روزانہ کی بنیاد پر بے شمار واقعات، سانحات رونما ہوتے ہیں اور بقول شاعر
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
سیاسی اور عسکری قائدین نے واقعتاً اگر پاکستان کی جمہوریت اور سالمیت کے لیے کام کرنا ہے تو ذاتی سوچ کے خلاف جاکر آئین اور قانون پر عمل درآمد کو شروع کرنا ہوگا اور خود کو آئین کے تابع کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی استحکام کو پروان چڑھانا ہوگا کیونکہ پاکستان کی بقا جمہوریت کی بقا میں ہے اور سیاست دانوں کے مثبت پختہ ارادے اور جمہوری اقدار کو اپنانے میں ہے اور اسی کی بدولت معاشی ترقی کا دور شروع ہوگا۔
دوسری جانب پاک فوج ملک کی سالمیت کا اہم ترین ادارہ ہے اس میں قوم کے بیٹے اور بیٹیاں دن رات ملکی سرحدوں اور دیگر بیرونی خطرات سے نبرآزما ہیں اور اپنی جانوں پر کھیل کر ملک کے دفاع کو مضبوط بنائے ہوئے ہیں مگر اس میں اعلی سطح پر موجود افسران جنھیں ہم اسٹبلشمنٹ کے نام سے جانتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ آئین کے اندر رہ کر ادارے کو ملکی دفاع کے لیے استعمال کریں اسی میں آئین کی روح بھی پوشیدہ ہے اور ایسا ہی پاکستان کی عوام چاہتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام جمہوریت کو پسند کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ملک جمہوریت کے بل بوتے پر ہی قائم ہوا تھا اس لیے اس کو صاف ستھری سیاست کے تحت آگے بڑھایا جائے۔
یہاں سیاست دانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے انہیں بھی اپنی چھ گز لمبی زبانوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات اور مقدمات بنا کر عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے سیاسی اور جمہوری اقدار کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاسی اکھاڑے سجانے کی بجائے جمہوریت کے ایوانوں کو مضبوط بنانے کی سوچ اختیار کرنی ہوگی اور سب سے پہلے اجارہ داری کی سوچ چھوڑ کر ” میچورٹی ” کا مظاہرہ کرنا ہوگا تبھی پاکستان تیسری دنیا کے ممالک سے نکل کر آگے بڑھ پائے گا وگرنہ پاکستان سیاست دانوں اور اسٹبلشمنٹ کی منفی سوچ کی بھینٹ چڑھ کر دنیا میں اپنی اہمیت کھو دے گا۔