اکتوبر 1993 میں ولیم نیگور نامی ایک نارویجن پبلشر کوگولی مار دی گئی۔ کیونکہ نیگورڈ نے سلمان رُشدی کی متنازعہ کتاب شیطانی آیات شائع کی تھی ۔ نیگورڈ اس حملے میں زخمی ہوا لیکن اس کی جان بچ گئی۔
میں اس وقت نیانیا ناروے آیا تھا اور نارویجن زبان سیکھنے اوسلو یونیورسٹی جاتا تھا۔ ہماری کلاس کے طالب علموں کا تعلق دُنیا کے مختلف ممالک سے تھا۔ نیگور کے واقعے نے سارے ناروے کو ہلاکر رکھ دیا۔ ہر جگہ اس واقعے پہ بحث ہو رہی تھی۔ ہماری کلاس اس سے الگ کیسے رہ سکتی تھی۔ ہمارے ٹیچر نے بھی کلاس میں اس واقعے پہ بحث کروائی۔ جب واقعے پہ تبصرہ کرنے کے لیے میری باری آئی تو میں نے کہا کہ سلمان رُشدی اور اور اس کتاب کو چھاپنے والے سب واجب القتل ہیں۔ ساری کلاس حیرت سے میرا منہہ دیکھنے لگی۔ کیونکہ سب اس واقعے کی مذمت کر رہے تھے۔ میں واحد آدمی تھا جو گولی مارنے کی حمایت کر رہا تھا۔ ہمارے ٹیچر نے اپنے حواس مجتمع کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ کہ ’کیا تم نے وہ کتاب پڑھی ہوئی ہے‘۔ میں نے کہا نہیں لیکن اس کے کچھ اقتباسات پڑھے ہیں۔ ٹیچر نے کہا کہ ڈیئر پہلے کتاب پڑھو پھر اپنی رائے قائم کرو۔ کتاب پڑھے بغیر تم اتنی انتہائی رائے کیسے دے سکتے ہو؟
مجھے یہ بات سُن کے سخت شرمندگی ہوئی۔ ٹیچر کی بات بالکل درست تھی۔ اس کے بعد جتنی گفتگو ہوئی میں نے کسی بات میں حصہ نہیں لیا۔ جب وقفہ ہوا تو میرا عراقی دوست ڈاکٹر ولید میرے پاس آیا اور مجھے کہا کہ ’تم رُشدی کو کیوں قتل کرو گے۔ اس سے بہتر نہیں کہ اس کی باتوں کا جواب ایک کتاب لکھ کر دیا جائے؟ اُس سے مباحثہ کیا جائے اور اسے جھوٹا ثابت کیا جائے؟‘
میں اس وقت اتنی سخت شرمندگی کے عالم میں تھا۔ کہ میں نے ڈاکٹر ولید کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اُسے کیا بتاتا کہ میں تو غازی علم دین کی کرامات سُن سُن کے جوان ہوا تھا۔ کہ کیسے انہیں پھانسی دیئے جانے سے قبل حضور نبی کریم صلعم اپنے صحابہ سمیت جیل میں تشریف لائے تھے۔ اور کیسے غازی عٍلم دین کا کمرہ بُقعہ نور بنا تھا۔ اور حضور نبی کریم صلعم نے فرمایا کہ میں اور میرے صحابہ حوض کوثر پہ تمارا انتظار کر رہے ہیں۔ پھر جب انہیں پھانسی دے دی گئی۔ تو حکیم الامت علامہ اقبال نے تدفین کے موقع پہ تقریر کر تے ہوئے کہا کہ ’ ہم باتیں ہی بناتے رہے اور ترکھان کا لڑکا بازی لے گیا‘۔
اسی موقع پہ ایک جید عالم اور نڈر صحافی مولانا ظفر علی خان نے فرمایا ’ کاش اس قبر میں میں پڑا ہوتا‘۔
میں تو ایسے بڑے بڑے لوگوں کی باتیں سُن کے جوان ہوا تھا ۔ مجھے جو تاریخ پڑھائی گئی تھی۔ وہ قتل و غارت گری سے بھرپور تھی۔ فلاں نے اتنے جہنم واصل کئے۔ فلاں نے فلاں کی گردن کاٹ دی۔ وغیرہ وغیرہ۔ حملہ آور اور جنگجو میرے ہیرو تھے۔ میں ان کے نام کے جنگی ترانے سُنتا تو میرے اندر بجلی سی بھر جاتی۔ مجھے مر جانا اور مار دینا با عث سعادت سکھایا گیا تھا۔ ڈاکٹر ولید کو کیا خبر تھی۔ کہ میں تو احمدیوں کو کافر قرار دیے جانے پہ خوش تھا۔ احمدیوں پہ لعنتیں بھیجے بغیر تو میرا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ مجھے تو بتایا گیا تھا۔ کسی احمدی کو قتل کر دیا جائے تو اس سے بھی جنت ملتی ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آئین میں یہ شق آنے سے پہلے لوگوں کے ایمان کیسے مکمل ہوتے ہوں گے۔؟ جب احمدیوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ تو وہ لوگ کیسے مسلمان ہوں گے؟ کیونکہ سوچنا میرا کام ہی نہیں تھا۔ مجھےجو سکھایا گیا۔ پڑھایا گیا میرے لئے وہی میرا ایمان تھا۔
ڈاکٹر ولید بے چارہ سمجھتا تھا کہ میں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ حالات حاضرہ پہ گہری نظر رکھتا ہوں۔ مذہب اور سیاست پہ مباحثوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتا ہوں۔ میں نے تو یہ سب پڑھ رکھا ہوگا۔ لیکن اسے کیا علم کہ ہمارے مولوی صاحب سب جانتے تھے۔ انہی نے کہا تھا کہ رُشدی واجب القتل ہے۔ اور میں غازی علم دین جیسے اس شخص پہ رشک کرتا تھا۔ جو یہ مقدس کام کرتا۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا۔ کہ ایسا کام کرنے والا چاہے کتنا ہی فاسق و فاجر کیوں نہ ہو سیدھا جنت میں جاتا ہے۔ لیکن میرے نارویجن ٹیچر اور ڈاکٹر ولید نے میرا تقدس و تفاخر کا یہ محل ایک ٹھوکر سے ہی ٹُکڑے ٹُکڑے کر ڈالا۔ اب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔
میں نے سب سے پہلے وہ کتاب خریدی اور پڑھی۔ لیکن اس میں تو سب کچھ وہی تھا جو ہمارے لٹریچراور ہماری تاریخ میں لکھا ہے۔ ماسواٗے اس کے اپنے تبصرے اور ننگی گالیوں کے۔ پھر مجھے تجسس ہوا کہ راج پال کی کتاب پڑھی جائے کہ غازی علم دین نے اُسے کیوں قتل کیا۔ وہ قتل جس کی علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر تاثیر جیسے لوگوں نے حمایت کی۔ اور قائد اعظم جن کے وکیل تھے۔ اس کتاب کا مواد بھی ہماری اپنی کتابوں سے لیا گیا ہے۔ اور مصنف نے کتاب کے اختتام پہ اس بات کا ذکر بھی کیا ہے۔
آج اٹھائیس سال بعد میں پھر ایک دوراہے پہ کھڑا ہوں۔ اور اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ سیالکوٹ جیسے واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟ میں آئینے کے سامنے کھڑا اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں۔ تو جواب آتا ہے۔ ’ تُم ذمہ دار ہو‘۔ میں پوچھتا ہوں وہ کیسے ؟ جواب آتا ہے۔ قرآن کا حکم ہے ’ سوچا کرو‘ ۔ تو کیا تم سوچتے ہو ؟ قرآن نے کہا علما کی اکثریت غلط راستے پہ ہے۔ کیا تم نے سب کچھ اُن پہ نہیں چھوڑ رکھا؟ وہ جو تاریخ ، احادیث یا تفاسیر بیان کرتے ہیں۔ کیا تم نے کبھی اُن پہ غور کیا ؟ کیا کبھی سوچا کہ اس تاریخ یا احادیث سے نبی کریم صلعم کی سیرت طیبہ اُجاگر ہوتی ہے یا داغدار؟ کیا کبھی اپنے ملک میں بننے والے قوانین کے مضمرات پہ غور کیا ہے۔ کہ ان کے معاشرے پہ کیا ثرات مرتب ہوں گے؟ کیا کبھی ان قوانین کے خلاف احتجاج کیا ہے؟ کیا تشدد پہ اٰکسانے والے لوگوں کے خلاف آواز اُٹھائی؟ کیا متشدد تاریخ سے انکار کیا ؟
تم تو ہر چیز کو تقدس کی چادر اوڑھا دیتے ہو۔ جان لینے اور جان دینے کو گلیمرائز کرتے ہو۔ قرآن تو کہتا ہے۔ کہ ’اے محمد ہم نے تمہیں داروغہ بنا کے نہیں بھیجا۔ تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے‘۔ تو تم داروغے کیوں بنے بیٹھے ہو؟ اللہ تعالی نے تو شیطان کی بھی زبان بندی نہیں کی۔ بلکہ اسے کہا کہ جا تو بھی لوگوں کو اپنی بات پہ قائل کر کے دیکھ لے جو میرے پیغام کی حقانیت کے قائل ہوں گے۔ وہ تیرے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ کیا تجھے اس پیغام کی حقانیت پہ یقین نہیں؟ کیا تو اللہ تعالی سے بڑا ہے؟
قرآن کہتا ہے کہ ’دین میں کوئی جبر نہیں‘۔ تو کیوں دوسروں سے اپنی بات زبردستی منواتا ہے؟ یاد رکھ جو سوچتا نہیں، قرآن نے اسے جانوروں سے بھی بدتر کہا ہے۔ میں خاموش ہوں ان سوالوں کے جواب نہیں دے پا ر ہا۔ پھر آواز آتی ہے خاموش رہو، ڈرتے رہو اور اپنی باری کا انتظار کرو۔